ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
|
جمعیة علمائِ ہند کا موقف یہ تھا کہ اِس وقت درحقیقت پاکستان بننے والے پورے پورے صوبوں سمیت جو بنگال وآسام اَور پنجاب ملا کر ہوتے تھے مجوزہ پاکستان میں مسلمانوں کی کل تعداد پانچ کروڑ اِکیانوے لاکھ بنتی تھی اَور باقی اَقلیت والے صوبوں میں تین کروڑ اُنیتس لاکھ رہتی تھی (گو جوشِ بیان میں مسلم لیگ کے مقرر حضرات یہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں مسلمانوں کی تعداد ساڑھے سات کروڑ ہوگی اَور ہندوستان میں ڈھائی کروڑ رہ جائیں گے) آئندہ آنے والا نقشہ ملاحظہ فرمائیں گے تو ہر صوبہ میں ہندو مسلم تناسب کی تفصیل وار تعداد سامنے آجائے گی۔ اَکابر جمعیة علمائِ ہند کو اِس نقطۂ نظر سے سخت اِختلاف تھاکہ فقط کسی خاص علاقے کے مسلمانوں کو تو فائدہ پہنچ جائے اَور دُوسرے علاقے کے مسلمانوں کو قربان کردیا جائے ۔اُن کے نزدیک یہ طریقہ مسلمانوں کے مسائل کا حل نہیں تھا مثلاً قائد اعظم نے کانپور میں اسٹوڈینٹ فیڈریشن کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے حسب ِ ذیل الفاظ فرمائے تھے : ''میں مسلم اکثریت کے ساڑھے سات کروڑ مسلمانوں کی آزادی کی خاطر مسلم اَقلیت والے صوبوں کے ڈھائی کروڑ مسلمانوں کو قربان کر کے اُن کے مراسم تجہیز و تکفین اَدا کرنے کو تیار ہوں۔ ''(مدینہ ٩ جولائی ٤٤ئ۔ کشف ِ حقیقت ص ٥٨) اَور احمد آباد کی تقریر میں فرمایا : ''اقلیت والے صوبوں پر جو گزرتی ہے گزرجانے دو لیکن آؤ ہم اپنے اُن بھائیوں کو آزاد کرادیںجو اکثریت کے صوبوں میں ہیں تاکہ شریعت ِ اسلامی کے مطابق وہاں آزاد حکومت قائم کرسکیں۔'' (ایمان لاہورمورخہ ٢٨ فروری ١٩٤٠ء پاکستان نمبر بحوالہ کشف ِ حقیقت ص ٥٩) ''کشف حقیقت ''میں تحریر ہے جس کا یہ خلاصہ ہے کہ : ''اِس طرح گویا تین کروڑ اُنتیس لاکھ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنا ہوا'' جان مال مذہب کلچر زبان تجارت صنعت وغیرہ سب خطرے میں پڑ جائیں گے۔ غیر مسلم اُن کو اسپینیوں کی طرح مظالم کر کے اُن کو معاذ اللہ'' شُدھی'' کرلیں یا اُن کو صفحۂ ہستی سے