ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
|
طرح اپنے تمام مال کو ناپاک کر لیتے ہو کیونکہ تمہاری پاک کمائی میں اگر غصب کا مال مل جائے تو ساری کمائی ناپاک ہو جاتی ہے۔ اِس چالیسویں حصے کے علاوہ باقی ٣٩ حصے تمہارے ہیں اِن کو اپنے پاس جمع بھی رکھ سکتے ہو،کاروبار کو ترقی دینے ،جائیداد اور املاک کو بڑھانے میںبھی صرف کر سکتے ہو ، اپنی اولاد کے لیے اَنداز بھی کر سکتے ہو کہ وہ تمہارے پیچھے ضرورت مند محتاج نہ رہیں۔ آنحضرت ۖ نے اِرشادفرمایا : تم اپنی اولاد کو دولت مند خوش حال چھوڑ و یہ اِس سے بہتر ہے کہ اُن کو فقیر چھوڑ وکہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ مگر یہ کبھی مت بھولو کہ اللہ تعالی کا حق اُن اُنتالیس حصوںپر بھی قائم ہے ۔اگر جہادِعام جیسا معاملہ پیش آئے یا قحط جیسی کوئی عام مصیبت افرادِ ملت کو گھیرلے یا آنے والی نسل کی تعلیم کا مسئلہ پیش ہو یا مثلاً کسی ایسی تیاری کا مسئلہ پیش ہو کہ مقابلے کے وقت آپ کی قوم دُوسری قوموں سے پیچھے نہ رہے ۔ایسے تمام موقعوں پرخود آپ کا اپنا فرض ہے کہ زکٰوة کے علاوہ بھی اپنی دو لت راہِ خدا میں صرف کرو کیونکہ اگر ایسا نہیں کرتے تو اپنی قوم اور ملک و ملت کی تباہی مول لیتے ہواَور خود اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کاسامان کرتے ہو۔ اللہ تعالی کا اِرشاد ہے : وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَةِ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ o (سورۂ بقرہ آیت:١٩٥) '' اے ایمان والو ! خرچ کرو اللہ کی راہ میں اَور نہ ڈالو اپنے آپ کو ہلاکت میں ،اور نیکی کرو بیشک اللہ دوست رکھتا ہے نیکی کر نے والوں کو۔'' غزوۂ عسرت کا واقعہ مشہور ہے کہ آنحضرت ۖ نے امداد کی اپیل فرمائی تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تین سواُونٹ ، دس ہزار دینار ،چارہزار درہم پیش کیے ۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے یہاں جو کچھ تھا اُس کا آدھا لے آئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تویہ کمال کیا کہ جو کچھ تھا سب ہی لا کر بارگاہِ رسالت میں پیش کر دیا ۔ یہ ہے قومی اور ملی احساس جو ہر مسلمان میں ہونا چاہیے جس کی بنا پر وہ خود آگے بڑھ کر اپنی دولت خرچ کرے ۔ جتنے زیادہ ولولہ اور شوق سے دولت خرچ کرے گا اُتنا ہی زیادہ اَجر و ثواب کامستحق ہو گا ۔اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے :