ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
دس سال بنتی ہے۔ اِس روایت ِ سفیان میں سفیان سے نقل کرنے والے الفضل بن دکین کوفی ٨ ٢١ محمد بن عبداللہ الاسدی کوفی ٢٠٣ ابو عاصم النبیل بصری ٢١٢ سب طبقۂ تاسعہ کے رُواة ہیں۔ انہوں نے یہ روایت بقول النبیل مجتمعاً مکہ میں سفیان سے ١٤٦ میں سنی ۔اور الحسن بن وھب جمحی کے مکان میںسنی اُس زمانہ میں مکہ میں مشہور جگہ ہوگی۔ وکیع بن جراح کوفی ١٩٧ کی روایت میں اگر چہ تصریح نہیں ہے مگر خیال ہے اُنہوں نے وہیں سنی ہوگی۔ غالباً حج کے ایام میں سنی ہوگی کیونکہ اِس موقع پر لوگ جمع ہوئے ہیں۔ اِس روایت میں سفیان سے مراد دونوں ہو سکتے ہیں دونوں کوفی ہیں دونوں جلیل القدر محدث ہیں دونوں مرجع خلائق تھے۔ یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ رُواة بھی کوفی ہیں صرف ایک بصری ہیں۔ اور مروی عنہ بھی کوفی ہے۔ مگر اَخذ روایت کا مقام مکہ ہے۔ میرے نزدیک اِس روایت میں سفیان سے مراد سفیان ِ ثوری ہیں۔ اِس صورت میں یہ سند عالی ہوجاتی ہے۔ کیونکہ سفیان ِ ثوری طبقہ سابعہ کے راوی ہیں اور سفیان بن عیینہ طبقہ ثانیہ کے راوی ہیں۔ اِس طرح روایت ایک درجہ اُوپر چلی جاتی ہے۔ دُوسرے سفیان ِ ثوری علاوہ محدث ہونے کے فقیہ بھی ہیں یہ بھی سند میں وجہ استحکام ہے۔ پھر روایت فطری انداز میں ہے۔ ایک فقیہ ہی ایسی روایت کا انتخاب کر سکتا ہے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ راوی پر تضاد بیانی کا الزام نہیں آتا۔ سفیان بن عیینہ اگر مراد ہوں تو لازم آے گا۔ ایک طرف روایت ِ ہشام بیان کر رہے ہیں کہہ رہے ہیں نکاح چھ سال میں بنا ء نو سال میں معیت بنی نو سال۔ اِس روایت میں لکھ کہہ رہے ہیں کہ نکاح اور رُخصتی میں فرق ایک سال ہے۔ اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ نکاح ٦ سال میں نہیں ہوا۔ نکاح اور بناء میں تین سال کا فرق نہیں ہے اور معیت دوسال رہی، اِس لیے ضروری ہے کہ یہاں اِس روایت میں سفیان ثوری مراد لیا ہو۔ عَبْدُ الْمَلِکْ بِنْ عُمَیْرْ عَنْ عَائِشَہْ : معلوم نہیں آپ نے کہاں سے لیا اور اسی طرح عبدالرحمن عن عائشہ۔ بہر حال کہیں سے بھی لیا ہو اپنے مقرر کردہ اصول کے مطابق ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔البتہ عروہ عن عائشہ ، اَسود عن عائشہ ،ابو عبیدہ عن عائشہ صحاح میں موجود ہیں ۔اِس پر تفصیلی گفتگو کی جاچکی ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہے :