ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
قطع رحمی ....... قرآن وسنت کی روشنی میں ( تالیف : حضرت شیخ محمد ابراہیم صاحب الحمد ، ترجمہ: عبد اللطیف صاحب معتصم ) قطع رحمی بہت بڑا گناہ اور عظیم جرم ہے جو رابطوں میں جدائی کا ذریعہ بنتی ہے اور تعلقات کو ختم کر دیتی ہے، عداوت اور دُشمنی پیدا کر کے دُوری کو پروان چڑھا تی ہے، اُلفت ومحبت کو زائل کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دُوری اور نزول ِ رحمت اور دخول ِ جنت سے مانع بنتی ہے۔ ذلت وتنہائی میں مبتلا کر کے غموم وہموم میں اِضافہ کرتی ہے کیونکہ آزمائش اگر ایسی جہت اور ایسے شخص کی طرف سے سامنے آئے جس سے بھلائی اور خیر کی توقع ہو تو اُس کی ضرب سخت تکلیف دہ اور اَذیت ناک ہوتی ہے۔ اِس گناہ کی شناخت کے سلسلے میں باری تعالیٰ کا یہ اِرشاد کافی ہے۔ فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکُمْo اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فَاَ صَمَّھُمْ وَاَعْمٰی اَبْصَارَھُمْ۔ ( سُورہ محمد ٢٢، ٢٣) ''اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے۔ '' اور جناب ِ نبی کریم ۖ کا فرمان ِ مبارک ہے : '' لَایَدْ خُلُ الْجَنَّةَ قَاطِع '' یعنی جنت میں قطع رحمی کرنے والا داخل نہیں ہوگا، حضرت سفیان ثوری نے اِس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا : قَاطِع سے قطع رحمی کرنے والا مراد ہے۔ قطع رحمی کی صورتیں : قطع رحمی اُن امور میں سے ہے جو مسلمانوں کے معاشرے میں پھیل چکے ہیں خصوصاً عصر ِ حاضر میں جس میںمادّی سرکشی بڑھی ہوئی ہے رشتہ داروں کے پاس آناجانا کم ہو چکا ہے بہت سے لوگ اِس حق کی اَدائیگی میں کوتا ہی کرتے ہیں اور اِس حکم کو ضائع کرتے ہیں۔قطع رحمی کی بہت سی صورتیں ہیں جس میں لوگ مبتلا ہیں :