ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
جانے کے بعد اِس نکاح سے پہلے اُس نے وہی کام کرلیا ہوتو اَب اِس نکاح کے بعد اُس کام کے کرنے سے طلاق نہ پڑے گی ۔اور اگر طلاق پانے کے بعد عدّت کے اَندر اُس نے وہی کام کیا تب بھی دُوسری طلاق پڑگئی۔ مسئلہ : اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا اگر تو روزہ رکھے تو تجھ کو طلاق تو روزہ رکھتے ہی فورًا طلاق پڑگئی۔ البتہ اگر یوں کہا اگر تو ایک روزہ رکھے یا دِن بھر کا روزہ رکھے تو تجھے طلاق تو روزہ کے ختم پر طلاق پڑے گی اگر روزہ توڑ ڈالے تو طلاق نہ پڑے گی۔ مسئلہ : کسی نے یوں کہا جس دِن تجھ سے نکاح کروں تجھ کو طلاق۔ پھر رات کے وقت نکاح کیا تب بھی طلاق پڑگئی کیونکہ بول چال میں اِس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت تجھ سے نکاح کروں تجھ کو طلاق۔ مسئلہ : کسی نے اپنی بیوی کو کہا اگر تجھ کو حیض آئے تو تجھ کو طلاق ۔ اِس کے بعد عورت نے خون دیکھا تو ابھی سے طلاق کا حکم نہ لگائیں گے بلکہ جب پورے تین دن رات خون آتا رہے تو تین دِن تین رات کے بعد یہ حکم لگائیں گے کہ جس وقت سے خون آنا شروع ہوا تھا اُسی وقت سے طلاق پڑ گئی تھی۔ اور اگر یوں کہا ہو جب تجھ کو ایک حیض آئے تو تجھ کو طلاق تو حیض کے ختم ہونے پر طلاق پڑے گی۔ مسئلہ : عورت نے گھر سے باہر جانے کا اِرادہ کیا مرد نے کہا ابھی مت جاؤ، عورت نہ مانی، اِس پر مرد نے کہا اگر تو باہر جائے تو تجھ کو طلاق۔ تو اِس کا حکم یہ ہے کہ اگر ابھی باہر جائے گی تو طلاق پڑے گی اور اگر ابھی نہ گئی تو کسی اور دن گئی تو طلاق نہ پڑے گی کیونکہ اِس کا مطلب یہی تھا کہ ابھی نہ جاؤ پھر جانا ، یہ مطلب نہیں کہ عمر بھر نہ جانا۔ بقیہ : آیت خاتم النبےّین اور اکابر اُمت اَکابر ِ اُمت کے واضح اور صاف اَندا ز میں اپنا عقیدہ بیان کرنے بعد بھی کوئی شخص یا جماعت ایسی عبارتیں تلاش کرے جن کا مفہوم واضح بھی نہیں اَور جس سے اُن کی مراد کچھ اور ہے پھراِلزام عائد کرنا کہ وہ کسی قسم کے نبی کی آمد کو ختم ِ نبوت کے منافی نہیں سمجھتے تھے انتہائی بدیانتی ہے۔آخری بات اُن بزرگوں کی کسی عبارت سے کسی کو اگر کوئی غلط فہمی گزرے تو اُسے چاہیے کہ وہ اُن کی صاف اور واضح عبارتوں کو سامنے رکھے جس میں اُنہوں نے دَو ٹوک الفاظ میں ختم ِ نبوت کے منکر کو کافر اور مرتد لکھا ہے، یہی امانت اور دیانت ہے۔