ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
مصعب بن سعد عن عائشہ : یہ سند آپ نے ابن سعد ص ٦٠سے لی ہے سند یہ ہے : '' اَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَھَّابِ نَا اِسْرَائِیْلُ عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ مَصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ مِثْلَہ ''۔ اِس پوری سند میں حضرت عائشہ کا نام نہیں ہے۔ اِس لیے یہ مرسلِ مصعب ہے۔ چونکہ روایت میں کوئی مضمون نہیں ہے ہر مضمون کی سند کے بعد مثلہ رکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے اِس مہمل روایت سے تو کوئی استد لال ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر آپ نے یہ کرم فرمایا کہ اس میں اپنی طرف سے عن عائشہ اضافہ فرمالیا۔ کتاب میں نہیں ہے۔ روایت عبداللہ بن عروہ عن عائشہ : یہ سند بھی آپ نے ابن سعد سے نقل کی ہے۔ یہ روایت عبداللہ بن عروہ بہت عمدہ روایت ہے۔ مگر آپ نے سند دیکھ کر نقل کردی حالانکہ عبدللہ بن عروہ کی حضرت عائشہ سے کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ یہ عروہ کے بڑے فاضل لڑکے تھے ہشام سے پندرہ سال بڑے ہیں۔ تہذیب التہذیب نے اِن صحابہ کے نام لکھ دیئے ہیں جن سے یہ روایت بیان کرتے ہیں۔ اُن میں حضرت عائشہ کا نام نہیں ہے۔ اِس لیے اِس صورت میں یہ سند ناقص ہے ۔یہ اپنے باپ عروہ سے روایت نقل کرتے ہیں تو اِس سند میں یا عن عروہ رہ گیا ہے یا عبداللہ عن عروہ عن عائشہ تھا یہاں عن کی جگہ ''بن ''لکھا گیا دونوں صورتوں میں یہ نسخ کی غلطی ہے۔وکیع کی سند میںجو ابن ِ سعد میں ص ٤٠ پر ہے۔ اور مسلم میں اِس روایت کی سند میں عن عروہ عن عائشہ ہے۔ میں مدتوں اِس سند پر غور کرتا رہا۔ ضرورت یہ پیش آئی کہ بخاری شریف میں سفیان سے روایت ِ تزوج منقول ہے بخاری اور سفیان کے درمیان محمد بن یوسف ہے محمد بن یوسف استاتذہ ٔ بخاری میں دو ہیں۔ محمد بن یوسف بیکندی۔ جن سے ابتداء میں بخاری نے روایات لی ہیں دُوسرے محمد بن یوسف فریابی ۔سند میں کوئی قید نہیں ہے۔ روایت ِ تزوج میں حافظ ابن حجر نے بتلایا کہ اِس سند میں محمد بن یوسف سے مراد فریابی ہیں پھر اِس سے اُوپر سند میں سفیان ہیں۔ اِس میں حافظ ابن حجر کی تصریح ہے کہ سفیان سے مراد ثوری ہیں۔ اسی لیے مطبوعہ بخاری شریف میں محمد بن یوسف کے بعد قوسین میں (فریابی ) اور سفیان کے بعد (ثوری ) لکھا گیا ۔ مگر بوجوہ میں یہ خیال کرتا تھا