ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
معصوم بچے اپنی ماں کی شفقتوں اور توجہات سے محروم ہیں اور دُنیا کی ہوس کی وجہ سے کرایہ کی ''آیاؤں'' یاسکول کی ''میموں'' کی گودوں میں اِن کا بچپن گذر رہا ہے، ہوسکتا ہے خودغرض دُنیا اِسے ترقی قراردے لیکن اصل میں یہ موجودہ دَور کا عظیم اِنسانی اَلمیہ ہے۔ (د) جب پیسہ ہی سب کچھ ہوجائے تو اِنسانی قدروں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی بالخصوص عورت ذات جب دولت کی دیوانی بن جاتی ہے تو پھر دولت کمانے کے لیے وہ اپنی عفّت وعصمت کی نیلامی سے بھی گریز نہیں کرتی، چنانچہ آج کی نئی تہذیب میں اِس نظریہ پر نکیر تو کجا اِسے معیوب ہی نہیں سمجھا جاتا اور دُنیا میں کروڑوں عورتیں اِس راہ سے تجارت میں ملوث ہیں اور اِنہیں قانونی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ تو چند اِشارات ہیں ورنہ عورتوں کے تجارتی میدان میں نقل وحرکت کے جو مفاسد ہیں اُنہیں شمار کرانا دُشوار ہے۔ اسلام نے عورت پر گھریلو ذمہ داریاں ڈالی ہیں جبکہ بیرونی کاموں کی ذمہ داری مرد کے سپرد ہے، اسی لیے عورتوں کو محرم کے بغیر سفر کی ممانعت ہے اور گھوڑ سواری (سکوٹر اور موٹر سائیکل وغیرہ کی ڈرائیوری بھی اِسی حکم میں ہے) کرنے والی عورتوں پر حدیث میں لعنت کی گئی ہے وغیرہ، گویا اُن کا دائرۂ کار صرف اُن کا گھر ہے، اِس ذمہ داری سے منہ چراکر محض دُنیا کی ہوس میں عورت جب بھی باہر نکلے گی یہ حکمِ خداوندی اور فطرتِ انسانی سے بغاوت ہوگی اور اِس کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں نکل سکتا جس کو آج دُنیا بھگت رہی ہے۔ (٣) قطع رحمی : اِسلام میں صلہ رحمی اوررشتہ داروں اور اَعزہ کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید وارِد ہے، بخاری اور مسلم وغیرہ میں روایت ہے کہ پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام نے اِرشاد فرمایا کہ: ''جو شخص بھی اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اُسے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے''۔ (بخاری شریف :٦١٣٦، الترغیب والترہیب :٥٤٠) نیز احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ صلہ رحمی سے دُنیا میں رزق میں وسعت، عمر میں زیادتی اور بری موت سے بچاؤ جیسے منافع حاصل ہوتے ہیں۔ نیز صلہ رحمی ایسا عمل ہے جو بڑے سے بڑے گناہ کی معافی کا ذریعہ بنتا ہے، ایک روایت میں وارِد ہے کہ ''ایک شخص پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ ہوگیا ہے کیا میرے لیے توبہ کی کوئی شکل ہے؟ حضور ۖ