ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
ہو، ہمارے یہاں خیریت کیوں ہوتی۔ واقعی بچوں کے ساتھ خیریت کہاں !بچپن میں اُن کے ساتھ اِس قسم کے رنج اور فکریں ہوتی ہیں اور جب وہ سیانے ہوئے تو اگر صالح (نیک) ہوئے تو خیر اور آج کل اِس کی بہت کمی ہے ورنہ پھر جیسا وہ ناک میں دم کرتے ہیں معلوم ہے۔ پھر ذرا اَور بڑے ہوئے جوان ہوگئے تو اُن کے نکاح کی فکرہے۔ بڑی مصیبتوں سے نکاح بھی کردیا تو اَب یہ غم ہے کہ اُس کے اَولاد نہیں ہوتی۔ اللہ اللہ کر کے تعویذ گنڈوں اور دواؤں سے اَولاد ہوئی تو بڑے میاں کی اِتنی عمر ہوگئی کہ پوتے بھی جوان ہوگئے۔ اَب بچہ اُن کو بات بات میں بیوقوف بناتا ہے اوراُن کی خدمت کرنے سے اُکتا تا ہے اور بیٹے پوتے منہ پر (سامنے ہی )کورِی (کھری کھری ) سناتے ہیں اور یہ بیچارے معذور ایک طرف پڑتے ہیں، یہ اَولاد کا پھل ہے تو پھر خوامخواہ لوگ اِس کی تمنائیں کرتے ہیں۔ جن کے اَولاد نہ ہوتی ہو اُن کی تسلی کے لیے عجیب مضمون : میرے اُستاذ مولانا سیّد احمد صاحب دہلوی کے ماموں مولانا سیّد محبوب علی صاحب جعفری کے کوئی اَولاد نہیں ہوئی تھی۔ ایک دفعہ وہ غمگین بیٹھے تھے میرے اُستاد نے پوچھا اور یہ اُن کے لڑکپن کا زمانہ ہے کہ آپ غمگین کیوں ہیں؟ کہا مجھے اِس کا رنج ہے کہ بڑھاپا آگیا اور میرے اَب تک اَولاد نہیں ہوئی۔ اُستادنے فرمایا سبحان اللہ !یہ خوشی کی بات ہے یا غم کی ؟ اُنہوں نے پوچھا یہ خوشی کی بات کیسے ہے؟ فرمایا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ کے سلسلہ نسل (خاندان) میں آپ ہی اَصل مقصود ہیں اور آپ کے تمام اباؤاَجداد مقصود بالخیر یعنی ذریعہ ہیں بخلاف اَولاد وَالوں کے کہ وہ مقصود نہیں ہیں بلکہ اُن کو توغم کے واسطے پیدا کیا گیا ہے۔ دیکھیے گہیوں دو قسم کے ہوتے ہیں ،ایک وہ جن کو کھانے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ دُوسرے وہ جو تخم کے لیے رکھے جاتے ہیں تو اِن دونوں میں مقصود وہ ہے جو کھانے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ کھیت بونے سے مقصود یہی گہیوں تھے اَور جس کو تخم (بیج) کے واسطے رکھتے ہیں وہ مقصود نہیں بلکہ واسطہ ہیں مقصود کے۔ اسی طرح جس کے اَولاد نہ ہو آدم علیہ السلام سے لے کر اِس وقت تک ساری نسل میں مقصود وہی تھا اور سب (اباؤاَجداد) اِس کے وسائل (ذرائع) تھے اور جن کے اَولاد ہوتی ہے وہ خود مقصود نہیں ہیں بلکہ تخم کے لیے رکھے گئے ہیں تو واقعی ہے تو یہ علمی مضمون۔بے اَولادوں کو اپنی حسرت اِس مضمون کو سوچ کر ٹالنی چاہیے۔ (باقی صفحہ ٤٣ )