ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
کرنی چاہیے اور جب بھی کسی شخص کا مسلمان ہونا کسی قرینہ سے معلوم ہوجائے تو اُس کو سلام کرنے میں دریغ نہیں کرنا چاہیے۔(مگر آج کل مشکل یہ ہے کہ عام طور پر مسلمانوں نے بالوں کی تراش خراش اور لباس، پوشاک میں غیر مسلموں کی مشابہت اِس قدر زیادہ اختیار کررکھی ہے کہ گفتگو اور تحقیق کے بغیر ظاہری وضع دیکھ کر یہ پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ وہ مسلمان ہے یا غیر مسلم؟ اِس صورتِ حال پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے) (٢) تجارت میں عورتوں کی شرکت : قیامت کے قریب دُنیا میں نہ صرف تجارت اور ٹریڈنگ عام ہوگی بلکہ اپنے ساتھ بے شمار فتنوں کا سیلاب بھی لائے گی کیونکہ مرد وعورت سب دُنیا کمانے میں لگ جائیںگے اور سارے عالم کی نظر میں دُنیا ہی مقصود اعلیٰ قرار پائے گی جس کی خاطر اِنسانی اور اخلاقی قدریں اور فطری اور معاشرتی تقاضے یکسر پامال کردیے جائیںگے، اسی جانب مذکورہ حدیث میں اِشارہ فرمایا گیا ہے۔ اِس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ بیوی اپنے شوہر کا ہاتھ بٹائے گی بلکہ عمومی مفہوم کے اعتبار سے مراد یہ ہے کہ مرد وعورت سب دُنیا کمانے میں شانہ بشانہ ساتھ چلیںگے اور اِن دونوں کے ساتھ چلنے سے دُنیا فتنوں کی آماجگاہ بن جائے گی جس کو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔مثلاً : (الف) فرموں، کمپنیوں اور سرکاری اداروں وغیرہ میں نوجوان مرد وعورت ایک ساتھ بیٹھ کر نوکریاں کرتے ہیں جس کی بنا پر نہ صرف عفّت وعصمت داغ دار ہوتی ہے بلکہ حقیقی اَزدواجی زندگی کا سکون بھی غارت ہوجاتا ہے۔ (ب) آج کی خود غرض اور بے غیرت دُنیا نے عورت ذات کو پورے عالم میں تجارت بڑھانے کا ایک اہم وسیلہ بنادیا ہے اور مصنوعات کی تشہیر کے لیے ماچس کی ڈبیہ سے لے کر قیمتی ترین اشیاء تک ہر چیز کے لیبل اور برسر راہ ''ہورڈنگوں'' پر عورت کی بے لباس تصویریں عام ہیں، جس صنفِ نازک کو قدرت نے فطری حیا اور غیرت کے زیور سے سجایا تھا اُس کو تجارت کے لُٹیروں اور ہوس پرستوں نے برسرعام ظاہر کرکے ذلّت ورُسوائی کے غار میں دھکیل دیا ہے اور یہ عورت کی کم عقلی ہی ہے کہ اِن رُسوائیوں کے باوجود وہ خدائی فطری قانون کی پابندی کرنے کے بجائے اپنے لُٹیروں کے ہاتھوں کھلونا بنے رہنے پرہی خوش ہے۔العیاذ باللہ۔ (ج) کاروباری میدان میں عورتوں کے قدم رکھنے کی وجہ سے خاندانی نظام تباہ ہوتا جارہا ہے،