ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
ہیں وہ بھی خاندانی کشیدگیوں کی وجہ سے محض ایک رسم بن کر رہ جاتی ہیں جن میں ہرفرد صرف ایک روایت پوری کرتا ہے اور دل حقیقی جذبات سے عاری ہوتے ہیں اَللّٰہُمَّ اَحْفِظْنَا مِنْہُ ۔ (٤) جھوٹی گواہی : جھوٹ بولنا ویسے ہی گناہ ہے لیکن جھوٹی گواہی دینا اِس کی آخری حد ہے، اِسی وجہ سے نبی اکرم انے اِسے ''اکبر الکبائر'' قرار دیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ پیغمبر ںنے اِرشاد فرمایا کہ ''کیا میںتمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ اُن میں ایک شرک ہے دُوسرے والدین کی نافرمانی اور تیسرے جھوٹی گواہی ہے'' اور آپ ٹیک لگائے بیٹھے تھے جب جھوٹی گواہی کی بات تک پہنچے تو ٹیک چھوڑدی اور بیٹھ کر بار بار اِسی کلمہ کو دہراتے رہے۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ آپ نے اِس قدر اِس کلمہ کو دہرایا کہ ہم تمنا کرنے لگے کہ آپ خاموش ہوجائیں۔ (بخاری شریف ٥٩٧٦، مسلم شریف ٨٧، ترمذی شریف ١٩٠١، الترغیب والترہیب ٣٥١٢، الزواجر ٣٢٠٢) شیخ عزالدین بن سلام فرماتے ہیں کہ جھوٹی گواہی دینے والا شخص تین گناہوں میںمبتلا ہوتا ہے : (١)جھوٹ کا گناہ (٢) ظالم کی مدد کا گناہ (٣) مظلوم کو ذلیل کرنے کا گناہ۔ (الزواجر ٣٢١٢ـ٣٢٢) معلوم ہوا کہ حقیر مفادات کے حصول کے لیے حاکم یا لوگوں کے سامنے جھوٹی گواہی دے کر ظالم کی تائید کرنا اِسلام کی نظر میں انتہائی بدترین عمل ہے اور جس معاشرہ میں اِس طرح کا جھوٹ عام ہوجائے یہ اُس کی غیرت وحمیت کے فنا ہوجانے کی دلیل ہے، مگر آج جب ہم اپنے مسلم معاشرہ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بھیانک حقیقت سامنے آتی ہے کہ چند ٹکوں کے لیے جھوٹی گواہیاں دینے والے اور معمولی مفادات کے لیے نااہل لوگوں کی تائید کرنے والوں کی فوج در فوج موجود ہے، بالخصوص مروجہ عدالتوں میں تو مقدمہ بازی کا سارا کاروبار ہی ایسی گواہیوں کی بنیاد پر قائم ہے، الامان الحفیظ۔ یہی وجہ ہے کہ آج عام طور پر مقدمات میں حقدار محروم ہوجاتا ہے اور ناحق شخص اپنے پیسہ اور طاقت کے بل بوتے پر قابض ومالک قرار دیا جاتا ہے۔ (٥) سچی گواہی کو چھپانا : قیامت کی علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جہاں ایک طرف جھوٹی گواہیاں عام ہوںگی وہیں صورتِ حال یہ ہوگی کہ سچی گواہی دیتے ہوئے لوگ گھبرائیںگے اور آدمی اپنے بچاؤ کی خاطر علم ومشاہدہ کے