ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
اَور یہ ہے بشارت جو میں عرض کررہا ہوں،ایمان والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ……… کَفَّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِھِمْ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے تو ہم اُن کے جو گناہ ہیں وہ گرادیں گے۔ توجو کافر ہے ایمان نہیں لایا اُن کے نیک اعمال گرادیں گے اَور جو ایمان والا ہے اُن کی غلطیاں گرادیں گے ۔تو کَفَّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِھِمْ یہ اِس کے جواب میں ہے اَضَلَّ اَعْمَالَھُمْ کہ اُن کے نیک اعمال گرادیں گے اوراِن کے گناہ گرادیں گے ۔تو ایمان اِتنی بڑی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو عطا فرمائے اَور وہ بنیادی اُمور پر بھی عمل کرتا گزرے تو اللہ تعالیٰ اُس کے سارے گناہ گرادیں گے تو اِس پر جتنی بھی محنت کی جائے وہ کم ہے تو دینی کوششوں میں اَب تک اِن مدارس کی اَور مساجد کی یہی کوشش رہی کہ کسی طرح ایمان قائم رہے اَور اُس کے گرد حفاظت کا پہرہ قائم رہے۔ اِن مدارس کی محنت یہی ہے اَور اِسی لیے ہے اَور دُوسرے درجے میں فضائل ِ اعمال کی محنتیں ہیں کہ لوگوں کو جاکر دین سکھانا، نمازیں درست کرنا، جو کلمہ صحیح نہ پڑھ سکیں کلمہ پڑھانا اورجو لوگ خود اِس طرف نہیں آرہے اُن کے گھروں میں پہنچ کر اُن کی دُکانوں میں پہنچ کر دین کی آواز دینا یہ فضائل ِ اعمال ہیں اِن کا بڑا ثواب ہے یہ دُوسرے درجے میں ہے ۔تو سب سے پہلے دین کی بڑی خدمت کیا ہے؟ ایمان کی سرحدوں کے گرد حفاظت کرنا۔ ایمان کو سمجھو کہ کیا ہے؟ میں نے ابھی ابھی آپ کے سامنے ایک کافر کے نیک اعمال کی بحث کرکے میں نے بتادیا کہ ایمان کا مقام اعمال کے مقابلے میں کیا ہے؟ حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ ایک(1) اُس کے ساتھ صفر بھی لگادو تو وہ بن جاتا ہے دس(10) اَور دو صفر لگادو تو بن جاتا ہے سَو(100)۔ تو یوں سمجھو کہ ایمان وہ ستون ہے وہ بنیاد ہے کہ اِس کے ساتھ اعمال کے ڈھانچے صفر کے درجے پر بھی ہوں تو قیمت بڑھ جائے گی۔ اگر ایک ہو وہ ایمان کے درجے میں ہے اَور ساتھ صفر بھی لگادو دَس پھر لگادو تو سَو تو ایمان وہ بنیاد ہے وہ ستون ہے کہ اِس کے ساتھ اعمال کے ڈھانچے قائم کردو اِنشاء اللہ قیمت بڑھ جائے گی ۔اَور اگر ایمان قائم نہیں فضائل ِ اعمال میں کتنی ہی محنت کرو تو یہ وہ صفر ہیں جو بائیں طرف لگیں گے(01) ایک کے بائیں طرف جو لگیں کیا اُن کی کوئی قیمت ہے؟ کچھ نہیں۔ اِن مدارس اَور مساجد نے ہمیشہ اِس بات کی کوشش کی محنت کی کہ ایمان کے گرد حفاظت کا پہرہ ہو۔ اگر ختم ِ نبوت کی بات ہو صحابۂ کرام کی بات ہو اقامت ِ سُنّت کی بات ہو حجےّتِ حدیث کی بات ہو اِن چیزوں سے ایمان کے