ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
غیرہ یہ ارکان و اعمال ایسے ہیں کہ اگر اِنہی دِنوں میں انجام دیا جائے تو عبادت ہے اور دِنوں میں اگر کوئی شخص عرفات میں دس دن ٹھہرے تو یہ کوئی عبادت نہیں۔ جمرات سال بھر کے بارہ مہینے تک منیٰ میں کھڑے ہیں لیکن دُوسرے دِنوں میں کوئی شخص جاکر اِن کو کنکریاں ماردے تو یہ کوئی عبادت نہیں۔ تو حج جیسی اہم عبادت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اِن ہی دِنوں کو مقرر فرما دیا ہے کہ اگر بیت اللہ کا حج اِن دِنوں میں انجام دوگے تو عبادت ہوگی اور اُس پر ثواب ملے گا ورنہ نہیں۔ لیکن دُوسری عبادتیں مثلاً پانچ وقت کی نماز اِنسانی فرائض میں سے ہے مگر جب چاہے نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ رمضان میں روزہ فرض ہے مگر نفلی روزہ جب چاہے رکھیں۔ زکوٰة سال میں ایک مرتبہ فرض ہے مگر نفلی صدقہ جب چاہے اَدا کریں۔ حج کے فضائل : ذی الحجہ کے مہینہ کی پہلی خاص اوراہم عبادت حج ہے۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حج سے متعلق بھی چند باتیں پیش کردی جائیں۔ ''حج'' اِسلام کا اہم رُکن اور فریضہ : اِسلام کے پانچ ارکان میں سے آخری اور تکمیلی رُکن بیت اللہ کا حج ہے۔ ''حج'' اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین عبادت ہے اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا شِعار ہے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے خانہ کعبہ کا حج کیا ہے اور کوئی پیغمبر ایسا نہیں ہوا جس نے حج نہ کیا ہو ۔(عمدة الفقہ بتغیر) حج کے فرض ہونے کا حکم راجح قول کے مطابق ٩ ہجری میں آتا ہے اور اِس سے ایک سال بعد یعنی اگلے سال ١٠ ہجری میں آپ ۖ نے وصال سے تین مہینے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ حج فرمایا جو '' حَجَّةُ الْوِدَاعْ '' کے نام سے مشہور ہے۔ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَةِ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِیْتَآئِ الزَّکٰوةِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ وَحَجِّ الْبَیْتِ ۔ (بخاری فی الایمان والتفسیر، مسلم فی الایمان، ترمذی فی الایمان ونسائی فی الایمان) ۔