ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
قرآنِ پاک خدا کی قدرت ہے کہ اِنہیں یاد نہیں ہوتا ۔اگر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یاد ہے قرآن ہمیں تو پھر اُن سے سُننا چاہیں تو نہیں سُناسکتے سلب ہوجاتے ہیں تو جو منافقین تھے اُن سے اچھے کام ہوئے بھی نہیں کہ یہ نوبت آتی کہ وہ علی الاعلان کہتے کہ اِس کے بارے میں تو رسول اللہ ۖ نے یہ فرمایا ہے تو وہ خود ہی ایسے رہے ہیں مشکوک زندگی گزاری ہے، غلط کاموں کی طرف یا نیکی میں پیچھے اِس طرح کی حالت رہی ہے۔ تو آقائے نامدار ۖ ایک ایک کے بارے میں ایسے دریافت فرماتے رہے یہ کون گزرا ہے یہ کون گزر ا ہے یا اَب کون گزرا اَب کون گزرا؟ ہوسکتا ہے آپ لیٹے ہوئے ہوں پوچھ رہے ہوں کہ اَب کون گزرا اَب کون گزرا؟ وہ نام لے لیتے تھے اَور رسول اللہ ۖ بتلادیتے تھے حتّٰی کہ پوچھا کہ اَب کون گزرا؟ تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ خالد ابن ِ ولید ہیں تو رسول اللہ ۖ نے فرمایا نِعْمَ عَبْدُ اللّٰہِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ سَیْف مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ یہ اللہ کے اچھے بندے ہیں خالد ابن الولید نام بھی اُن کا اپنی زبانِ مبارک سے اَدا فرمایا اَور پھر فرمایا سَیْف مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ یہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں۔ یہاں پر دُوسری جگہ آتا ہے حضرت عبیدہ ابن ِ جراح رضی اللہ عنہ کا۔ یہ اَور حضرت خالد دونوں ساتھ ساتھ رہے ہیں وہ معرکہ جو بہت بڑا معرکہ ہوا تھا یرموک کا رُومیوں کے ساتھ اُس میں حضرتِ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ عشرۂ مبشرہ میں ہیں بہت بڑا درجہ ہے اُن کا صحابیت کے اعتبار سے اَور وہ اَمیرِ لشکر تھے، حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت سب جانتے تھے تو اُن سے محاذِ جنگ کے نقشوں میں مدد لیتے تھے۔ فرض ِمنصبی ، حضرت خالد سے حضرت عمر کی بِلا رعایت حساب طلبی اور کٹوتی : حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کی جب گرفت ہوئی ہے حضرت خالد رضی اللہ عنہ پر کچھ چیزوں میں مثال کے طور پر ،خرچ جو میں وہاں کروں گا اُس کا حساب میں نہیں دے سکتا یہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے بات کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے اِن کو نہ بنائیے مگر اُنہوں نے پھر اَمیر بنادیا اَور عراق کی طرف روانہ کردیا جو منکرین ِ زکوٰة ،مانعین ِ زکوٰة تھے یا مرتدین تھے اُن کی طرف شروع ہوئے ہیں پہلے چلنا یہ، اَور اُنہیں اجازت دی حضرتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہ یہ ٹھیک ہیں چلو ایسے کرلیا کریں آپ، تو اُس میں وہ چلتے رہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دَور آیا تو بس فورًا، اُنہوں نے کہا جب میری رائے اُن کی موجودگی