ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
قربانی کے فضائل : اِس مہینے کی دُوسری خاص عبادت'' قربانی'' ہے۔ قربانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ذی الحجہ کے تین دن (یعنی دس، گیارہ اور بارہ تاریخ) مقرر فرمادیے ہیں۔ اِن دنوں کے علاوہ اگر کوئی شخص قربانی کی عبادت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ اگر کسی نے قربانی کا جانور متعین کیا ہوا تھا لیکن اُس کی قربانی نہیں کی اور یہ تین دن گزرگئے، تب بھی اُس جانور کو ذبح کرنا جائز نہیں بلکہ اُس کو زندہ صدقہ کرنا ضروری ہے۔ کئی احادیث میں قربانی کے فضائل آئے ہیں، ایک حدیث میں اس کی فضیلت یوںبیان کی گئی ہے: ''مَا عَمِلَ آدَمِیّ مِنْ عَمَلٍ یَّوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ ، اِنَّھَا لَتَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلَا فِھَا، وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ مِنَ الْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْسًا '' (رواہ الترمذی وابن ماجہ فی الاضاحی، الترغیب والترھیب ج ٢ ص ٩٩) رسول کریم ۖ نے فرمایا کہ بقر عید کی دس تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (اور یہ چیزیں عظیم ثواب ملنے کا ذریعہ بنیں گی) اور فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبولیت حاصل کرلیتا ہے لہٰذا تم خوش دِلی کے ساتھ قربانی کیا کرو ۔(ترمذی، ابن ماجہ) فائدہ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دس ذی الحجہ کے دِن قربانی کرنے سے جو فضیلت حاصل ہوسکتی ہے وہ اِس کے مقابلہ میں کسی دُوسرے عمل سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے اگر کوئی شخص مثلاً پانچ ہزار روپیہ قربانی کرنے پر خرچ کرتا ہے اور دُوسرا شخص قربانی کے بجائے پچاس ہزار روپیہ صدقہ کرتا ہے تب بھی قربانی کرنے والے کو زیادہ فضیلت حاصل ہوگی۔ ایک روایت میں ہے : مَا اُنْفِقَتِ الْوَرِقُ فِیْ شَیْئٍ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ نَّحْرٍ یُّنْحَرُ فِیْ یَوْمِ عِیْدٍ (رواہ الطبرانی فی الکبیر والاصبہانی،الترغیب والترھیب ج ٢ ص ١٠٠)