ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
ہیں۔ تورسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم مجھ سے دریافت فرماتے تھے کہ یہ کون جارہا ہے؟ تو میں نام لے دیتا تھا اُس کا کہ یہ فلاں ہے ۔آپ فرماتے تھے کہ نِعْمَ عَبْدُ اللّٰہِ ھٰذَا یہ اللہ کا اچھا بندہ ہے۔ کوئی اَور گزرتا تھا فرمایا کون ہے یہ، یہ کون گزرا ہے ؟میں نے نام لے لیا تو پھر آپ نے فرمایا بِئْسَ عَبْدُ اللّٰہِ ھٰذَا یہ اچھا آدمی نہیں ہے یہ بُرا آدمی ہے یعنی خدا کے نزدیک برا آدمی ہے۔ تو ویسے تو ہر ایک کے بارے میں اِس طرح کی باتیں ہر کسی سے نہیں کرتے تھے ،بہت ہی خصوصیت کی بات ہے کہ جنابِ رسول اللہ ۖ کسی کے بارے میں اظہار فرمائیں ایسا، ورنہ نہیں فرماتے تھے اظہار۔ ایک صحابی ہیں حضرتِ حذیفہ ابن ِ یمان رضی اللہ عنہ، اُن کے بارے میں آتا ہے کہ اُن کو نام بتارکھتے تھے کہ یہ یہ یہ منافق ہیں۔ منافق ہیں کیا، منافق ہی رہیں گے گویا ایمان سے محروم ہی رہیں گے یہ ۔ اَب یہ معیوب چیز ہے عیب کی چیز ہے تو اِس کو کسی پر ظاہر اُنہوں نے بھی نہیں کیا، پتہ تھا اُن کو، اِن حضرات کو مطلع کرنے کا فائدہ : اِس سے فائدہ بھی تھا مثلاً حضرتِ حذیفہ ابن ِ یمان سے کہیں کوئی چیز مشورةً کہی جارہی ہو تو وہ اُس میں مشورہ دے سکتے تھے کہ اِس آدمی کو اِس کام پر مامور نہ کریں ایک تو یہ بات بھی ہے دُوسری بات یہ بھی ہے کہ جو آدمی منافق ہی تھا تو اُس سے اچھے کام تو ہونے ہی نہیں تھے خود بخود ہی ،تو دُوسرے صحابۂ کرام نے بھی اُن کو کسی ایسے بلند مقام پر نہیں پہنچایا کہ جس میں ایسی نوبت آئے کہ حضرتِ حذیفہ ابن ِ یمان اُس کے بارے میں راز ظاہر کریں۔ اُستاد کی اہمیت ،بے فیض رہنے کی ایک وجہ : اَور معلوم یہ ہوتا ہے سب کے سب اِسی طرح بیکار کے بیکار ہی رہے بالکل ایسے ہے جیسے ہماری مذہبی تعلیم کے اَندر تو اُستاد کی خوشنودی بہت ہی ضروری چیز ہے اگر کسی سے اُستاد خوش نہ ہو تو اُس سے آگے کو فیض ہی چلنا بند ہوجاتا ہے ناراض ہو فیض ہی چلنا بند ہوجاتا ہے چاہے بہت لائق ہو اَور ایسے بھی ہوتا ہے کہ استعداد اُس کی اِتنی نہیں ہے لیکن وہ مقبول ہوتا چلاجاتا ہے طالب علموں میں اَور اُس سے فائدہ بہت ہوتا ہے۔ یہ رضامندی اَور ناراضگی کا اَثر پڑتا ہے۔