ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( طلاق دینے کا بیان ) طلاق دینے کا بیان : الفاظ کے اِعتبار سے طلاق دینے کی دو قسمیں ہیں : ١۔ طلاق ِ صریح : وہ یہ ہے کہ شوہر ایسے لفظوں سے طلاق دے جن سے عام طور سے صرف طلاق کا معنی ہی سمجھا جاتا ہو کوئی اور معنی نہ نکلتا ہو مثلاً یوں کہے میں نے تجھے طلاق دی یا کہے میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی۔ غرض اِس میں شوہر کی نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر صریح دو قسم کی ہوتی ہے اگر رجعی طلاق پڑتی ہو تو صریح رجعی اور اگربائن طلاق پڑتی ہو تو صریح بائن۔ مسئلہ : اگر صاف صاف لفظوں میں طلا ق دی تو زبان سے نکلتے ہی طلاق پڑگئی چاہے طلاق دینے کی نیت ہو چاہے نہ ہو بلکہ ہنسی اور دِل لگی میں کہا ہو، ہر طرح ہوگئی۔ اور صاف لفظوں میں ایک یا دوطلاق دینے سے تیسری قسم کی طلاق پڑتی ہے یعنی عدت کے ختم ہونے تک اُس کے رکھنے نہ رکھنے کا اِختیار ہے اور ایک مرتبہ کہنے سے ایک ہی طلاق پڑے گی نہ دو پڑیں گی نہ تین۔ البتہ اگر تین دفعہ کہے یا یوں کہے تجھ کو تین طلاقیں دیں تو تین طلاقیں پڑیں گی جو طلاق ِ مغلظہ ہوجاتی ہے۔ مسئلہ : کسی نے یوں کہا کہ تجھ کوتین طلاق دے دُوں گا تو اِس سے طلا ق نہیں ہوئی۔ اِسی طرح اگر کسی بات پر یوں کہا کہ اگر فلانا کام کرے گی تو طلاق دے دُوں گا تب بھی طلاق نہیں ہوتی چاہے وہ کام کرے چاہے نہ کرے۔ مسئلہ : کسی نے اپنی بیوی کو'' طلاقن'' کہہ کر پکارا تب بھی طلاق پڑگئی اگر چہ ہنسی مذاق میں کہا ہو۔ یہ اُس صورت میں ہے جب اُس عورت کا یہ پہلا نکاح ہو یا دُوسرا نکاح ہو اور اُس کے پہلے شوہر نے طلاق نہ دی ہو اور اگر اُس عورت کو اُس کے پہلے شوہر نے طلاق دی ہو اور اِسی نیت سے اَب اِس شوہر نے اُس کو ''طلاقن'' کہہ کر پکارا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے طلاق دینے کی نیت سے'' طلاقن'' نہیں کہا بلکہ پہلے شوہر