ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
فقہاء کرام کی تصریحات سے بھی حرمت والے مہینوں میں روزے رکھنے کا مستحب و مندوب ہونا ثابت ہے۔ ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کی فضیلت : ویسے تو ذی الحجہ کا پورا مہینہ ہی اپنی ذات میں خیر و برکت والا مہینہ ہے لیکن اس مہینہ کا پہلا عشرہ خصوصیت کے ساتھ مزید فضیلت کا حامل ہے۔ قرآن پاک میں ہے : وَالْفَجْرِ o وَلَیَالٍ عَشْرٍo وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِo (سُورۂ فجر) ''قسم ہے فجر (کے وقت) کی اور (ذی الحجہ کی) دس راتوں (یعنی دس تاریخوں) کی (کہ وہ نہایت فضیلت والی ہیں کَذَا فُسِّرَ فِیْ الْحَدِیْثِ) اور جفت کی اور طاق کی (جفت سے مراد دسویں تاریخ ذی الحجہ کی اور طاق سے نویں تاریخ ) ۔ ''(بیان القرآن) تشریح : اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کئی چیزوں کی قسمیں کھائی ہیںاور اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کی قسم کھانے سے یقینی طور پر اُس چیز کا عظمت و فضیلت والی چیز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ پہلی چیز جس کی قسم کھائی گئی '' فَجْر'' یعنی صبح صادق کا وقت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اِس سے مراد ہر روز کی صبح ہو کہ وہ عالم میں ایک عظیم اِنقلاب لاتی ہے اور حق تعالیٰ شانہ کی قدرتِ کاملہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اِس سے کسی خاص دن کی فجر مراد ہو ۔ بعض مفسرین حضرات نے اِس سے خاص دس ذی الحجہ کی صبح مراد لی ہے، حضرت مجاہد اور حضرت عکرمہ رحمہما اللہ کا یہی قول ہے۔ اور حضرت ابن عباس سے بھی ایک روایت میں یہ قول منقول ہے۔ حضرت امام قرطبی رحمہ اللہ نے اِس تاریخ کے خاص ہونے کی ایک علمی وجہ بھی لکھی ہے جس کے مطابق دس ذی الحجہ کی صبح دُنیا کے تمام دنوں میں ایک خاص شان رکھتی ہے۔ دُوسری چیز جس کی قسم کھائی گئی ہے وہ'' وَلَیَالٍ عَشْرٍ'' دس راتیں ہیں۔ جمہور مفسرین ِائمہ، حضرت ابن عباس، حضرت قتادہ، حضرت مجاہد، حضرت سُدّی، حضرت ضحاک، حضرت کلبی رحمہم اللہ کے نزدیک اِن دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں کیونکہ حدیث میں اِن کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ ابوزبیر نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ خود رسول اللہ ۖ نے اِن دس راتوں کی تفسیر میں فرمایا کہ اِس سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ یہ دس راتیں و ہی ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آئی ہیں وَاَتْمَمْنَاھَا بِعَشْرٍ (سورہ اعراف آیت ١٤٢) کیونکہ یہی دس