ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی ( مرتب : حضرت مولانا ابوالحسن صاحب بارہ بنکوی ) ذات ِ مقدسہ جل وعلی شانہ' کی حضوری اور اُس کی رضا و خوشنودی غرض ِ اصلی ہے اُسی کے لیے تمام سعی اور کوشش جاری رہنی چاہئیں اصلی ذکر یہ ہے۔ ٭ اَمراض ِ قلبیہ کے متعلق جد و جہد ہمیشہ جاری رکھیے مگر سب سے زیادہ مقدم ذکر اور مراقبہ ہے اُس میں اِنتہائی محنت اور توجہ ہونی چاہیے اگر اُس میں کامیابی ہوگئی تو آہستہ آہستہ اَخلاق بھی درُست ہوجائیں گے۔ ٭ متقدمین تہذیب ِ اخلاق کی جد و جہد اوّلاً کراتے تھے پھر سلوک بالذکر والمراقبہ کراتے تھے مگر بسااَوقات ایسا ہوا کہ سالک کی عمر تہذیب ِ اخلاق ہی میں ختم ہوگئی۔ متاخرین وصول الی اللہ کے بعد اخلاق ِ رزیلہ کا اِزالہ کراتے ہیں اِس میں اگر سالک کی عمر درمیان میں ختم ہوگئی تو محروم نہیں جاتا نیز وصول الی اللہ کے بعد اخلاقِ رزیلہ کا اِزالہ بہت آسان ہوجاتا ہے اِسی طریقہ کو ہمارے اَکابر پسند فرماتے ہیں۔ ٭ واقعہ یہ ہے کہ نفوس زمانہ سعادت میں جس قدر اِستعداد رکھتے تھے اُس کے مطابق اور ماحول کے اثرات کے ماتحت خیر القرون میں عدد و قیود اور کیفیات درکار نہ تھیں مگر بعد میں واجبات ِ ذکر اور تقرب الی اللہ کے لیے حکماء اَرواح کو اَزمنہ متاخرہ میں اعداد و قیود ضروری معلوم ہوئیں۔ ٭ اَمراضِ باطنیہ میں تفاوت کی بنا پر علاج اور اَدویہ میں تفاوت کا ہونا ضروری ہے۔ زمانہ ہائے مشہود لہا بالخیر پر اِس زمانہ کو جو کہ مشہود لہا بالشر ہے مساوی قیاس کرنا غلطی ہوگی۔ ٭ آدمی کتنا بھی بزرگ ہوجائے مگر پھر بھی اِنسان ہے اِنسانی کمزوریاں علم یا سلوک سے فنا نہیں ہوتیں البتہ نفسانی خباثات میں کمی آجاتی ہے۔ (انقلاب ماہیت ہوجائے تو دوچند اَجر و ثواب کیونکر ہو؟) ٭ اگر تصور ذات بُحت ایسا غیر ممکن ہے تو پھر صفات کا اثبات اور توحید کا اعتقاد اور تصدیق سب باطل ہوجائیں گے کیونکہ حکم بغیر تصور محکوم علیہ اور محکوم بہ ناممکن ہے۔