ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ جَائَ رَجُل اِلَی النَّبِیِّ ۖ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا یُوْجِبُ الْحَجَّ قَالَ اَلزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت ابن ِعمر سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے پوچھا کہ کیا چیز حج کو واجب کردیتی ہے؟ آپ ۖ نے فرمایا سفر کا سامان اور سواری۔ قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں حج فرض ہونے کی شرط بتائی گئی ہے کہ حج اُن لوگوں پر فرض ہے جو سفر کرکے مکہ معظمہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں، ایک سوال کرنے والے صحابی نے اِس استطاعت کی وضاحت چاہی تو آپ ۖنے مختصراً اِس کے بارے میں فرمایا کہ ایک تو سواری کا انتظام ہو جس پر مکہ معظمہ تک سفر کیا جاسکے (خواہ اپنی ہو یا کرایہ کی) اور اِس کے علاوہ کھانے پینے جیسی ضروریات کے لیے اِتنا سرمایہ ہو جو اِس سفر کے زمانہ میں گزارے کے لیے کافی ہو۔ فقہائے کرام نے آیات و احادیث میں غور فرماکر استطاعت کی ایسی وضاحت فرمادی ہے کہ اِس کی روشنی میں ہر شخص اپنے اُوپر حج فرض ہونے کا فیصلہ آسانی سے کرسکتا ہے، آپ بھی اِس میں غور کرکے اپنے اُوپر حج فرض ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرلیجیے ۔ حج کی استطاعت کا مطلب : حج فرض ہونے میں جس قُدرت اور استطاعت کی ضرورت ہے اُس کا مطلب یہ ہے : ''جس مسلمان، عاقل، بالغ، صحت مند، غیر معذور کے پاس اُس کی اصلی اور بنیادی ضروریات سے زائد اور فاضل اِتنا مال ہو جس سے وہ بیت اللہ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام و طعام کا خرچ برداشت کرسکے اور اپنی واپسی تک اُن اہل و عیال کے خرچ کا انتظام بھی کرسکے جن کا نان و نفقہ اُس کے ذمہ واجب ہے اور راستہ بھی مامون (امن والا) ہو تو ہر ایسے مسلمان پر حج فرض ہے۔ عورت کے لیے چونکہ بغیر محرم کے سفر کرنا شرعًا جائز نہیں اِس لیے وہ حج پر اُس وقت قادر سمجھی جائی گی جب اُس کے ساتھ کوئی شرعی محرم حج کرنے والا ہو، خواہ محرم اپنے خرچ سے حج کررہا ہو یا عورت اُس کے سفر کا خرچ بھی برداشت کرے۔'' (معارف القرآن جلد ٢ ص ١٢٢)