ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
٭ شغل ِبرزخ کو اگرچہ حضرت شاہ اسماعیل صاحب قدس سرہ العزیز نے سدًا للذریعہ منع فرمایا ہے مگر حضرت شاہ عبد الغنی صاحب مجددی رحمہ اللہ سے مجھ کو یہ روایت پہنچی ہے کہ وہ اِس کو منع نہیں فرماتے تھے۔ ٭ شغل ِبرزخ دفع ِخطرات اور اَحادیث ِ نفس کے منع کرنے میں بہت تاثیر رکھتا ہے مگر چونکہ غلط کاری کا اَندیشہ اِس میں بہت ہے اِس لیے اِحتیاط کی جاتی ہے جوکہ ضروری ہے۔ ٭ اَمراضِ باطنیہ کا علاج مختصرًا تو کثرتِ ذکر اور تدبر فی القرآن اور کثرتِ تلاوت ہے اور تفصیلی اَحادیث متعلقہ میں غور کرنا اور اُن کی ہدایات کے مطابق ہر ایک خلق میں جد و جہد کرنی، تصوف کی کتابیں اِن اُمور میں ہدایت مکمل کرتی ہیں بالخصوص امام غزالی رحمة اللہ علیہ کی کتابیں جیسے کیمیائے سعادت، منہاج العابدین وغیرہ۔ ٭ ذکر لسانی ہمیشہ اپنی کثرت مداوت سے ذکر قلبی جس کا مرکز زیرِ پستانِ چَپ چار اُنگل ہے اور ذکر رُوحی کی طرف جس کا مرکز زیرِ پستان ِراست ہے منبحرہوتا ہے۔ ٭ حضراتِ چشتیہ قدس اللہ اسرارہم تمام لطائف کو قلب ہی میں مندمج مانتے ہیں اور اسی کی طرف توجہ کرنے سے تمام لطائف کو طے کرتے ہیں۔ میرے محترم ! یہ سب لطائف وسائل اور ذرائع ہیں اَنوار وغیرہ بھی مقاصد ِ اصلیہ نہیں ہیں۔ ٭ قبض و بسط لوازماتِ بشری ہیں۔ بسط میں شکر گزاری ضروری ہے لَاِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ اور قبض میں استغفار کی کثرت اور عدمِ مایوسی لازم ہے۔ حضورِ دائم بلاکیف و کم کی جدوجہد کرتے ہوئے رضا اور خوشنودی کے خواہاں رہیں جس کے لیے اتباع ِسنن ِسید المرسلین ۖ اَز بس ضروری اور لازم ہے۔ ٭ اِس راہ میں غفلت بھی گناہ ہے اِس سے بار بار توبہ اور استغفار ہونی چاہیے۔ ٭ پڑھانے میں اگرچہ توجہ الی الغیر ہوتی ہے مگر اِس سے نسبت میں قوت پیدا ہوتی ہے اور نشر و اشاعت ِ دین اور وظیفہ نبویہ (علٰی صاحبہا الصلٰوة والسلام) کی ادائیگی ہوتی ہے اِس لیے اِس کے اَدا کرنے میں حسب ِ استطاعت کوشش کیجیے۔