ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( طلاق دینے کا بیان ) تحریری طلاق : مسئلہ : طلاق لکھنے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے۔اسی طرح اگرکسی اورنے طلاق نامہ لکھ دیاہواورشوہربلاجبراُس پردستخط کردیئے ہوں تواُس سے طلاق ہوجاتی ہے۔ یہ طلاق لکھتے ہی واقع ہوجاتی ہے۔ بیوی تک طلاق نامہ پہنچنابیوی کااُس کووصول کرناطلاق واقع ہونے کے لیے شرط نہیں ہے۔ البتہ اگریوں لکھاہوکہ جب تجھے یہ تحریرپہنچے تجھے طلاق توتحریرپہنچنے پرطلاق واقع ہوگی خواہ بیوی اُس کوپڑھے یانہ پڑھے اورخواہ وہ وصل کرے یانہ کرے۔ مسئلہ : اگرمحض ہوامیں اپنی انگلی سے بطورِ اِشارہ کے لکھ دیاکہ میری بیوی کوطلاق اورزبان سے کچھ نہیں کہاتوطلاق نہ ہوگی۔ مسئلہ : شوہراگرکاتب کو کہے کہ میری بیوی کی طلاق لکھ دوتویہ طلاق کااقرارہے اورعدالت کی نظرمیں یہ طلاق متصورہوگی اگرچہ کاتب نے طلاق لکھی نہ ہوکیونکہ بیوی کوطلاق وہ ہوتی ہے جودی جاچکی ہو۔ البتہ اگرشوہرکاتب کوکہے کہ میری بیوی کوطلاق لکھ دوتویہ طلاق کااقرارشمارنہ ہوگا اورکاتب جب تک لکھے گا نہیں طلاق پڑے گی۔ مسئلہ : اگرطلاق تحریرکی اورساتھ ہی زبان سے انشاء اللہ کہایازبان سے طلاق کہی اورساتھ ہی انشاء اللہ لکھدیا توطلاق واقع نہ ہوگی۔ طلاق دینے کاطریقہ : جس بیوی سے صحبت یاخلوت ہوچکی ہواُس کوطلاق دینے کے تین طریقے ہیں۔ ایک بہت اچھایعنی اَحسن ، دُوسراچھا،یعنی حسن اورتیسرابدعت اورحرام۔ 1 ۔ بہت اچھا یعنی اَحسن طریقہ یہ ہے کہ بیوی کوپاکی کے زمانے میں( یعنی ایسے وقت جس میں