ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہم فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ رات کو میں ایک ضرورت کے لیے رسول اللہ ۖ کی خدمت میں پہنچا (باہر سے اپنے آنے کی اطلاع دی) آپ چادر لپیٹے ہوئے باہر نکلے۔ چادر میں کچھ محسوس ہوتا تھا۔ میں نے جب اپنی ضرورت محسوس کرلی تو عرض کیا یارسول اللہ ۖ ! یہ کیا ہے جسے آپ لپیٹے ہوئے ہیں؟ آپ ۖ نے چادر کھول دی تو میں نے دیکھا کہ آپ کے ایک کولہے پر حسن اور دُوسرے کولہے پر حسین ہیں۔ آپ ۖ نے اُس وقت فرمایا کہ یہ میری اَولاد ہیں اور میری صاحبزادی کی اَولاد ہیں اور یہ بھی دُعا دی اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُحِبُّہُمَا فَاَحِبَّہُمَا وَاَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہُمَا اے اللہ ! میں اِن سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اِن سے محبت فرما اور جو اِن سے محبت کرے اُن سے بھی محبت فرما (مشکٰوة)۔ ایک مرتبہ آنحضرت ۖ اِس حال میں باہر تشریف لائے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے مبارک دَوش پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ خانگی اَحوال : حضرت علی کوئی سرمایہ دار آدمی نہ تھے۔اِن کے یہاں نہ اَسبابِ عیش فراہم تھے نہ خورد و نوش کی فراوانی تھی۔ گھر میں نہ سامان بہت تھا نہ گھر عمدہ تھا نہ کوئی خدمت گار تھا۔ آنحضرت ۖ نے جو حال (فقر و فاقہ کا) اپنے لیے پسند کیا وہی داماد اور بیٹی کے لیے پسند فرمایا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سیّدہ فاطمہ حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا یارسول اللہ ۖ ! میرے اور علی کے پاس صرف ایک مینڈھے کی کھال ہے جس پر ہم رات کو سوتے ہیں اور دن کو اُس پر اُونٹ کو چارہ کھلاتے ہیں۔ آنحضرت ۖ نے فرمایا کہ اے میری بیٹی! صبر کر! کیونکہ موسٰی علیہ السلام نے دس برس تک اپنی بیوی کے ساتھ قیام کیا اور دونوں کے پاس صرف ایک عَبا تھی (اِسی کو اَوڑھتے اور اِسی کو بچھاتے تھے)۔ (شرح مواہب لدنیہ) ایک روز آنحضرت ۖ حضرت سیّدہ فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے۔ اُس وقت حضرت حسن اور حضرت حسین موجود نہ تھے۔ آنحضرت ۖ نے دریافت فرمایا کہ میرے بیٹے کہاں ہیں؟ عرض کیا آج اِس حال میں صبح ہوئی کہ ہمارے گھر (کھانے کو تو کیا) چکھنے کو (بھی) کچھ نہ تھا، لہٰذا (اِن کے والد جناب) علی اِن کو یہ کہہ کر (باہر) لے گئے ہیں کہ گھر میں تم کو روکر پریشان کریں گے، فلاں یہودی کے پاس گئے ہیں (تاکہ کچھ محنت مزدوری کرکے لاویں) یہ سُن کر آنحضرت ۖ نے بھی اُس طرف توجہ فرمائی اور اُن کو