ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
دِکھانا اور اُس کی حکمت : دکھانا تو اِس حکمت سے تھا کہ میں تم سے وہ پوچھوں اور اُس کو پھر اُمت کو بتایا جائے کہ یہ وہ عمل ہے یہ مطلب تو نہیں تھا کہ اَب بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اِتنے زیادہ آگے بڑھ چکے تھے کہ رسول اللہ ۖ سے بھی آگے بڑھ گئے یہ تو کسی کے وہم و گمان میں بھی بات نہیں ہے تو حضرتِ بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ایسا عمل بتاؤ جو تم کرتے ہو جس پر تمہیں اُمید ہوتی ہو کہ یہ عمل میرا ایسا ہے کہ اِس کی وجہ میں اللہ نے یہ دکھایا کہ جنت عطاء فرمائیں گے اَرْجٰی عَمَلٍ۔ قرآن وحدیث میں آئندہ کو گذشتہ سے تعبیر کرنے کی حکمت : وہاں کا حال یہ ہے اُس عالَم کا کہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ ایسے ہے جیسے کہ ہوچکا ۔تو قیامت کا ذکر جہاں آتا ہے اُس میں جہاں مناظر آتے ہیں کہ یہ ہوگا یہ ہوگا یہ ہوگا وہ بھی ایسے ہی آتے ہیں جیسے کہ ہوچکے ہوں کیونکہ ہونا اُسی طرح ہے اور اُس میں کوئی رُکاوٹ ڈالنے والا ہے ہی نہیں کیونکہ وہ اللہ کرے گا تو اُس کے کام میں کوئی رُکاوٹ کا سوال ہی نہیں، تصور ہی نہیں تو جو قیامت میں باتیں ہوںگی اُن کو ایسے ذکر کیا گیا جیسے ہوچکیں ہوںحالانکہ اَبھی ہونہیں چکیں وَنَادٰی اَصْحَابُ النَّارِ،وَنَادٰی اَصْحَابُ الْاَعْرَافِ، وَنَادٰی اَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۔سب ماضی کے لفظ سے ہیں جنت والوں نے آواز دی اعراف والوں نے آواز دی جہنم والوں نے آواز دی تو اُنہوں نے یہ جواب دیا یہ جواب دیا حالانکہ ابھی قیامت بھی نہیں آئی ہے وہ بات بھی نہیں ہوئی ہے مگر ذکر ایسے فرمایا جیسے کہ وہ گزری ہوئی بات ہے کیونکہ اُس بات کے ہونے میں کوئی تخلُّف ہے ہی نہیں، ہونا ہی اُسی طرح ہے تو جب یہ بات ہو کہ ہونا ہی اُس طرح ہے تو ہوئی وِی بات اور ہونے والی بات سب ایک جیسی ہے۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو جب بڑا ستایا گیا تو خریدلیا، جب خریدلیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ایک دن اُنہوں نے کہا کہ اگر آپ نے مجھے اپنے کام کے لیے خریدا ہے پھر تو آپ اپنے پاس رکھیں اور میں خدمت انجام دُوں گا تکالیف بھی بڑی زبردست اُٹھائی تھیں اُنہوں نے بڑے ثابت قدم رہے اِسلام پر۔ تو اِنہوں نے کہا کہ اگر خدا کے لیے خریدا ہے مجھے تو پھر مجھے چھوڑدیجیے اور اللہ کے کام کو معاملے کو چھوڑدیجیے میرا اور خدا کامعاملہ ہے وَاِنْ کُنْتَ اِنَّمَا اشْتَرَےْتَنِیْ لِلّٰہِ فَدَعْنِیْ وَعَمَلَ اللّٰہِ ١ اُسی کو نقل ١ مشکوٰة شریف ص ٥٨٠