ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
کہ اس در کے علاوہ کوئی در نہیں، ان کی آنکھوں سے توسیلِ اَشک رواں ہے مگر وہ دل سے یہ کہہ رہے ہیں : ''اے اللہ ! تورحمن ہے، ہم ہزار برے ہیں لیکن ہمارے گناہوں سے زیادہ وسیع تیری رحمت کی چادر ہے''۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ عدل پر اُتر آئے تو ہماری نجات ممکن نہیں ہے اس لیے گھبراکر کہتے ہیں : ''مالک ! ہمیں آپ کا عدل نہیں آپ کا فضل چاہیے'' ۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری کوتاہیوں کا ذخیرہ اتنا بڑا ہے کہ اگر حساب شروع ہوا تو بہر حال پکڑے جائیں گے اس لیے پکار کر کہتے ہیں : '' مالک ! حساب نہ لیجئے، ہم حساب دینے کی ہمت کہاں سے لائیں ہم کو تو اپنے فضل وکرم سے حساب وکتاب کے بغیر معاف کرکے جنت دیدیجیے ''۔ ہرایک حاجی خدا وند ِقدوس کے دربار میں اس یقین کے ساتھ حاضر ہوتا ہے کہ یہاں سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹا ہے،اس لیے ہم بھی بخشش کا پروانہ لے کر جائیں گے ،فضل ِالٰہی اور رحمت ِباری کی بارش ہم پر بھی ضرور ہوگی۔ اپنی عاجزی کا احساس ،اپنی کوتاہی کا اعتراف ، اللہ کی رحمت پر اعتماد اور اس کے ساتھ ''کچھ نہ کچھ لے کر ہی جائیں گے ''کا یقین ،پھر کیف ومستی وخود فراموشی اور عشق ومحبت کے جذبات سے سرشار ہونا ، مچل مچل کر مانگنا ، لپٹ لپٹ کررونا، یہی وہ صدائیں اور ادائیں ہیں جو رحمتِ الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اورہر حاجی اپنا دامنِ مراد بھر لیتا ہے اور معصوم ، صاف ستھر ا، دُھلا دُھلایا بڑی دولت لے کر لوٹتاہے۔ (بشکریہ ماہنامہ ندائے شاہی، مراد آباد،انڈیا) بقیہ : حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب ایک مرتبہ آنحضرت ۖ حضرت صدیق ِ اکبر اور فاروقِ اعظم کے ساتھ حضرت ابواَیوب انصاری کے مکان پر پہنچے۔ اُنہوں نے آپ ۖ کی دعوت کی اور ایک بکری کا بچہ ذبح کرکے سالن پکایا اور روٹی تیار کی۔ آنحضرت ۖ نے ایک روٹی میں تھوڑا سا گوشت رکھ کر حضرت ابواَیوب کو دیا کہ یہ فاطمہ کو پہنچادو اُس کو بھی کئی روز سے کچھ نہیں مل سکا چنانچہ وہ اُسی وقت پہنچا آئے۔ (جاری ہے)