ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
قسط : ٤ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب ( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب رحمة اللہ علیہ ) حضرت سیّدہ فاطمہ کے گھر میں سیّد ِ عالم ۖ کا آنا جانا : حضرت رسولِ خدا ۖ باخدا بھی تھے اور باخلق بھی یعنی اللہ جل شانہ' سے تعلق و محبت اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں بھی پوری طرح مشغول رہتے تھے اور مخلوق کے حقوق کی اَدائیگی اور میل جول میں بھی کوتاہی نہ فرماتے تھے۔ آپ ۖ چونکہ معلمِ انسانیت تھے اِس لیے آپ ۖ کی زندگی ساری اُمت کے لیے نمونہ ہے۔ آپ ۖ کی زندگی سے سبق ملتا ہے کہ نہ تو اِنسان کو سراسر کنبہ و خاندان کی محبت میں پھنس کر خداوند ِ عالَم سے غافل ہوجانا چاہیے اور نہ بزرگی کے دھوکہ میں کنبہ و خاندان سے کٹ کر اَذکار و اَورَاد کو مشغلۂ زندگی بنالینا چاہیے۔ اعلیٰ اور اَکمل مقام یہی ہے کہ آنحضرت ۖ کا پورا پورا اتباع کرے اور ہر شعبۂ زندگی میں آپ ۖ کے اِقتداء کو ملحوظ رکھے۔ آنحضرت ۖ نے نکاح بھی کیے اور آپ ۖ کی اَولاد بھی ہوئی پھر صاحبزادیوں کی شادیاں بھی کیں اور اُن کی شادیاں کردینے کے بعد بھی اُن کی خیر خبر رکھی حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح جب آپ ۖ نے حضرت سیّدنا علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ سے کردیا تو آپ ۖ اُس روز رات کو اُن کے پاس تشریف لے گئے اور اکثر جاتے رہتے تھے اور اُن کے حالات کی خیر خبر رکھتے تھے اور اُن کے بچوں کو پیار کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت سیّدنا علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہماکے درمیان آپس میں کچھ رنجش ہوگئی تو حضورِ اَقدس ۖ نے اُن کے گھر تشریف لے جاکر صلح کرادی۔ اِس کے بعد باہر تشریف لائے اور حاضرین میں سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ جب اُن کے گھر داخل ہوئے تو چہرے پر کوئی خاص خوشی کا اَثر نہ تھا اور اَب جبکہ باہر تشریف لائے ہیں تو چہرہ پر خوشی کے آثار ہیں؟ آپ ۖ نے فرمایا میں کیوں خوش نہ ہوں جبکہ میں نے اپنے دو پیاروں کے درمیان صلح کرادی۔( اصابہ) ایک مرتبہ آنحضرت ۖ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، وہاں حضرت