ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
چار باتیں جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیگر حضرات پر فضیلت حاصل ہوئی : عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ فُضِّلَ النَّاسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِاَرْبَعٍ، بِذِکْرِ الْاُسَارٰی یَوْمَ بَدْرٍ اَمَرَ بِقَتْلِھِمْ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی لَوْلَا کِتَاب مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَاب عَظِیْم، وَبِذِکْرِہِ الْحِجَابَ اَمَرَ نِسَائَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّحْتَجِبْنَ فَقَالَتْ لَہ زَیْنَبُ وَاِنَّکَ عَلَیْنَا یَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالْوَحْیُ یَنْزِلُ فِیْ بُیُوْتِنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَاِذَا سَأَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَاسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ، وَبِدَعْوَةِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰھُمَّ اَیِّدِ الْاِسْلَامَ بِعُمَرَ، وَبِرَأْیِہ فِیْ اَبِیْ بَکْرٍ کَانَ اَوَّلَ نَاسٍ بَایَعَہ۔ (مسند احمد بحوالہ مشکوٰة ص ٥٥٨) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دُوسروں پر چار باتوں کے سبب خصوصی فضیلت حاصل ہے: ایک تو جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں اُن کی رائے تھی، اُن کا کہنا تھا کہ اِن قیدیوں کو قتل کردیا جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے(اُن کی رائے کے موافق) یہ آیت کریمہ نازل فرمادی لَوْ لَا کِتَاب مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَاب عَظِیْم یعنی اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ نوشتہ مقدر نہ ہوچکا ہوتا (کہ خطاء اِجتہادی کا مرتکب مستوجب عذاب نہیں ہوگا، یا یہ کہ اہل بدر مغفور ہیں) تو جو اَمرتم نے اِختیار کیا ہے اُس کے بارے میں تم پر کوئی بڑی سزا واقع ہوتی۔ دُوسری بات پردہ کے بارے میں اُنکا مشورہ دینا تھا، آپ نے نبی کریم ۖ کی اَزواج مطہرات کو پردہ میں رہنے کی طرف متوجہ کیا تھا (اور آپ کے توجہ دلانے پر)اُمّ المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے آپ سے کہا تھا کہ اے عمر بن خطاب تم ہم پر پردہ میں رہنے کا حکم چلا رہے ہو حالانکہ وحی ہمارے گھروں میں اُترتی ہے۔ اِس پر اللہ تعالیٰ نے یہ وحی نازل فرمائی وَاِذَا سَأَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَاسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ (اور جب تم اَزواج ِمطہرات سے کوئی چیز مانگوتو پردہ کی اَوٹ میں ہوکر مانگا کرو )۔