ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
مگر اُنیسویں و بیسویں صدی کے مغربی اہل ِ قلم کی تحریریں احساس ِ برتری سے لبریز ہیں کہ اصل تہذیب مذہب و قانون مغرب کا ہے۔ تکبر کے احساس سے طعن و تشنیع، دل آزاری اور انتقامی اَنداز نمایاں ہوا۔ غرض مغربی سکالرز دانشوروں کی تحریریں ہمیشہ سے سرد جنگ کا حصہ تھیں اُن کا پروپیگنڈہ اِس قدر شدید و طاقتور ہے کہ ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ جس نے اِسلام کو اپنے اصل مأخذ کے بجائے مغربی تحریروں سے پڑھا ہے اُس کی سوچ و فکر مکمل طور پر مغربی اہل ِ قلم و مستشرقین سے ہم آہنگ ہے۔ مغرب میں روزگار کی خاطر آنیوالے مسلمانوں کی بھاری اکثریت اِسلام کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہے۔ نظریاتی بے یقینی معاشرہ کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے نیز طاقتور حریف اُنہیں باآسانی اپنے ہی معاشرہ کے خلاف آلہ کار بنالیتا ہے جیساکہ برطانیہ میں بڑی تعداد میں مسلمان برطانوی انٹیلی جنس کے لیے کام کررہے ہیں اُن میں بے شمار مولوی بھی ہیں۔یہ علمی سرد جنگ (مستشرقین) کی ہے جو تقریبًا پانچ صدیوں سے جاری ہے اس کا ازالہ تو کجا ابھی تک اُس کے بیشتر گوشے پردہ راز میں ہیں۔ تاہم تاریخ میں پہلی بار اَب موقع آیا ہے کہ آج گلوبل و لیج کے عنوان سے مغرب اور اُس کے واسطے سے پوری دُنیا میں جو عالمی ضابطہ اخلاق اور معاشرتی اقدار کی تدوین و ترتیب ہورہی ہے اِس میںہم اسلام، قرآن اور شریعت کے انسانی معاشرہ کے لیے مفید، بہبود کے ضامن اور مثبت پہلوؤں سے مغرب کو روشناس کراسکتے ہیں۔ اِس طرح انسانی معاشرتی و اجتماعی مسائل کے حل کے لیے سیرت ِ نبوی ۖ کے بہت سے گوشے ممدد و معاون ہوسکتے ہیں ۔کیا مغرب میں بسنے والے کروڑوں مسلمان اِس سنہری موقع سے فائدہ اُٹھاسکیں گے؟ آج کی دُنیا ایک بستی یا گاؤں (گلوبل و لیج) اور مختلف ممالک اس کے محلے بن چکے ہیں۔ ہر ملک ملٹی نیشنل، ملٹی کلچرل و ملٹی ریلجن ملک ہے۔ دُنیا کے ہر بڑے شہر میں ایک پڑوسی کرسچین، دُوسرا یہودی، تیسرا سوشلسٹ بابدھسٹ ہونا عام بات ہوگئی ہے۔ نیز سیکولراِزم، ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کو عصری دُنیا بطور ایک عقیدہ تسلیم کرچکی ہے اور سیکولراِزم کے معنٰی کسی خاص مذہب یا تمدن کی ترجیح کے بجائے ہر مذہب و کلچر کو مساوی حقوق دینا اور سب کے لیے مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ ہر مذہب و کلچر کافرد باہمی رواداری، قربت، محبت سے رہ کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ آج دُنیا کا سب سے اہم مسئلہ یہی باہمی قربت، اِفہام و تفہیم رواداری کا ماحول ہے جب تک دُنیا کی دو بڑی قوموں (مسلمان و کرسچین) کے درمیان یہ رواداری و اِفہام و