ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
کے خطرے کو بھانپ کر ہی صیہونی صلیبی گٹھ جوڑ نے نہایت مہارت و چابکدستی سے نائن الیون کا واقعہ انجام دے کر اِسے مسلمانوں کے ذمہ لگایا تاکہ ایک طرف مغرب کو عالم ِ اسلام پر فوجی یلغار کرکے تباہ کرنے کا بہانہ فراہم ہو، دُوسری طرف یہاں اسلام کے خلاف نفرت کی آندھی چلاکر بڑھتی ہوئی مسلم آبادی پر بریک لگایا جاسکے۔ یہاں یہ حقیقت پیش ِ نظر رہنی چاہیے کہ شروع ہی سے مغرب بین اسلام کا مطالعہ کرنے والے تقریبًا تمام ہی طبقات (مؤرخین، اَدیب، شعرائ) کا تعلق ارکانِ کلب اور چرچ سے رہا۔ اُن کے نزدیک یورپ پر بیرونی مسلمانوں کے عسکری و سیاسی دباؤ کا واحد تحفظ اسلام کے خلاف نفرت انگیز جھوٹا پروپیگنڈہ تھا جب صلیبی جنگوں میں پورا یورپ تین صدیوں تک اپنی پوری طاقت جھونک کر بھی اِسلام کو ختم نہیں کرسکا تو ریمنڈلِل اور راجربیکن جیسے سکالرز نے پوپ کے سامنے اسلام کی بیخ کنی کے لیے اسلام کے مطالعہ کی تجاویز رکھیں طویل بحث و مباحثہ کے بعد اُسے منظوری مل گئی چنانچہ شروع ہی سے مغرب کے مطالعہ اسلام کا بنیادی مقصد اسلام کی خامیاں تلاش کرنا اور اُس پر نظریاتی حملوں کے لیے مواد جمع کرنا تھا۔جب تک مغرب کو مسلمانوں سے عسکری خطرہ رہا اُس وقت تک مستشرقین کی تحریریں شدیدتر عناد و نفرت میں ڈوبی رہیں جیسے جیسے خطرہ کم ہوتا گیا کھلے عناد و نفرت کی پیش رفت میں بظاہر کمی آئے گی۔ بیسویں صدی میں جب مغرب کو عالم ِ اسلام پر ہمہ جہتی غلبہ حاصل ہوگیا اور مسلمان عسکری، سیاسی، علمی، فکری طور پر مغلوب ہوگئے تب اِسلام کو سمجھنے کی کوشش شروع ہوئی۔ غرض مغرب میں اِسلام کا مطالعہ کرنے والے گروپ (مستشرقین) کی حیثیت ہمیشہ یہاں کی حکومتوں کے آلۂ کار اور اُن کی تحریروں کی حیثیت اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کی تھی اِس لیے سترھویں صدی کی تحریروں کی زبان اِنتہائی تلخ پُر عناد اور اسلوب ِ جارحانہ نے اٹھارویں صدی (خلافت ِ عثمانیہ کے کمزور ہوجانے کے باعث) میں کچھ متانت و سنجیدگی اختیار کرلی۔ کچھ کچھ اِسلامی، معاشرتی، تاریخی، علمی اَثرات دبی زبان سے تسلیم کیے جانے لگے۔ پہلے مغربی مؤرخین و مصنفین اِسلام کا مطالعہ ترکی سے شروع کرتے تھے، اَٹھارویں صدی میں سائمن اوکلے نے وصال ِ نبوی ۖ سے شروع کیا پھر اُنیسویں، بیسویں صدی عالم ِ اِسلام کے اِبتلاء اور شکست کی صدی تھی۔ اَب مغرب نے عالم ِ اسلام کو سیاسی، اقتصادی، علمی و فکری طور پر شکنجہ میں جکڑلیا تھا۔ اِسلام کے مزید کچھ محاسن تسلیم کیے جانے لگے