ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
آج کل تو یہ اُصول چل رہا ہے کہ بعد میں آنے والے کی تحقیق زیادہ معتبر ہوتی ہے۔ اِس لحاظ سے اُن دونوں اِماموں کی تحقیق زیادہ وقیع ہونی چاہیے اور جناب بھی اِسی اُصول پر چل کر تحقیق کر رہے ہیں)۔ نمبر٤٤۔٤٦۔٥٢ : صحاح کی ہر روایت پر مجھے قطعاً اصرار نہیں ہے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی نو سال کی عمر میں رُخصتی جیسا کہ جناب نے نمبر ١٨ میں تحریر فرمایاہے چار حضرات سے مروی ہے ،یہ خبر ِ واحد بھی نہیں ہے۔ نمبر ٤٨۔ ٤٩ میں اِرشاد فرمودہ باتیں بہت کمزور ہیں اور اِمام بخاری ومسلم وغیرہ کے اُصول اس طرح ناتمام ذکر فرمائے گئے ہیں جن سے یہ مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ اُن کے یہاں بیان ثقاہت وتثبت وحفظ وغیرہ کی قید نہیں تھی۔ سوال نمبر٣ : نمبر ٥٠ میں اِمام نسائی کے بارے میں یہ جملہ''جو نقد ِحدیث کے مسلم اِمام ہیں '' جناب کا ہے یا علامہ عثمانی کا ہے یا دونوں کا۔ یعنی آپ کی بھی اُن کے بارے میں یہی رائے ہے۔ نمبر ٥١ : میں جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ امام مالک نے کسی بدعتی سے روایت نہیں لی حالانکہ اُنہوں نے ابن شہاب زہری رحمة اللہ علیہما سے لی ہے، اِس کے بعد تو جناب کو اُن کی طرف سے دِل صاف کر لینا چاہیے۔ نمبر ٥٣، ٥٤، ٥٥، ٥٦، ٥٧، ٥٨ : میں تحریر کردہ باتیں فیصلے نہیں ہیں بحثیں ہیں ورنہ عقیدت توکجا رہی اُن کتابوں کو کوئی ہاتھ بھی نہ لگاتا اور لوگوں کے اِسی قسم کے اعتراضات حتی کہ مُرجئہ میں ہونے کا اعتراض اِمام اعظم رحمة اللہ علیہ پر کتابوں میں موجود ہے۔ بلکہ خطیب ِ بغدادی نے سو صفحات سے زیادہ میں اِمام اعظم رحمة اللہ علیہ کا تذکرہ لکھا ہے لیکن پچاس سے زائد صفحات میں امام اعظم رحمة اللہ علیہ کے خلاف دُنیا بھر کی روایات جمع کردی ہیں۔ نیز امام ابو یو سف رحمة اللہ علیہ اور امام محمد رحمة اللہ علیہ میں آپس میں مخالفت وحسد کے واقعے بھی لکھے گئے ہیںلیکن ہم نہ وہ مانتے ہیں اور نہ ایسے اِعتراضات کو جو اُن ائمہ حدیث پر کیے گئے ہیں قول ِ فیصل مانتے ہیں۔