ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
نمبر ٣٧ : کے بارے میں عرض ہے کہ اِرشاد ِ باری تعالیٰ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ اور وَالَّذِیَن جَآئُ وْا مِنْ بَعْدِھِم سے تابعین کی فضلیت پر اِستدلال کیا گیا ہے اور ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ اور اِس کے ہم معنٰی روایات سے صراحةً اُن کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اُن پر بے دھڑک جرح ہرگز دُرست نہیں ہوسکتی خصوصاً جس سے اُن کا اِستخفاف ہوتا ہو اور یہ مسئلہ تو ایسا بھی نہیں ہے کہ اُس میں انہوں نے خلاف ِ نص ِقرآنی کوئی بات کہی ہو۔ نمبر ٣٩ : اگر مسئلہ ما بہ النزاع ہو تب تو ذکر نہ کرنے سے یہ اِستدلال ایک حد تک درست مانا جاسکتا ہے ورنہ جب بھی یہ مسئلہ لکھا گیا ہو اُس وقت سے ہر مذہب کے متبعین کو دیکھا جائے گا کہ اُنہوں نے اپنے امام کے مقرر کردہ اُصول کے مطابق چل کر کیا کہا ہے۔ امام محمد کی کل تصانیف اور اِمام ابویوسف اور اِمام اعظم رحمة اللہ علیھما کی کل مرویات آج دستیاب ہی نہیں ہیں۔ اور مدونہ میں بیشتر وہی باتیں ہیں جو اِمام مالک سے دریافت کی گئیں اور اُنہوں نے جواب دیا۔ اُس میں نہ ہونے سے قبول نہ کرناثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اور محمد بن اسحاق کو امام فِی الْمَغَازِیْ مانا گیا ہے۔ اُن سے اگر منقول نہ ہو تو کیا ہوا۔ اُن کے قریبی دور کے مؤ رخ واقدی نے ذکر کیا ہے اور سیرت ابن ہشام میں بھی موجود ہے۔ نمبر ٤٠ : کے بارے میں عرض ہے کہ اِمام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کے اساتذہ نے بلکہ جن پر مسلک ِ حنفی کی بنیاد ہے اِس روایت کو قبول کیاہے۔ اور اُن سے اِس روایت اساتذہ کو قبول نہ کرنا اور رد کرنا کہیں ثابت نہیں ہے، اگر ہے تو ضرور تحریر فرمائیں۔ نسائی شریف میں یہ سند موجود ہے عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنِ الْاَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ تَزَوَّجَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ وَھِیَ بِنْتُ تِسْعٍ وَمَاتَ عَنْھَا وَھِیَ بِنْتُ ثَمَانِیَ عَشَرَةَ۔ ( ص نمبر ٦٢ ج ٢) ابراہیم واسود پر بنائے حنفیت ہے ۔ وہ اہم ترین شخصیات ہیں۔ اور تعجب ہے کہ اِمام شافعی اور اِمام احمد رحمة اللہ علیہما کا اِس روایت کو قبول کرنا بھی جناب کے نزدیک وزنی نہیں جبکہ وہ اُمت کے چار عظیم طبقوں میں سے دو کے اِمام ہیں۔ بلکہ جناب نے اُسے قصداً بہت معمولی بات بنا کر لکھا ہے (اور