ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
نے یہ تصرف کیا ہے۔ تو یقینًا اُن کے علم میں یہ بات آئی ہوگی کہ شادی کم عمری میں ہوئی ہے یعنی روایت ِ تزوج نمبر ٢٦ : کے قاعدہ کلیہ کے بارے میں یہ اِشکال ہے کہ پھر اِمام ترمذی نے کیوں ایسا کیا ہے کہ روایت بھی لکھی اور اور اُسے غریب بلکہ منکر بھی لکھ ڈالا۔ معلوم ہوتا ہے اُن محدثین کا نقطہ نظر کوئی اور تھا۔ نمبر ٣١ : کے بارے میں عرض ہے کہ مصنف ہی میں اُس کے بعد نمبر١٠٣٥٠ کی سند بھی اُنہوں نے دی ہے، اُس میں زہری نہیں ہیں عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَّعْمَرٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ اَبِیْہِ مِثْلَہ ص نمبر١٦٢ ج نمبر٦ ۔ نمبر٣٢ : لفظ ''مَعَ'' میں تو سع کلام ِ عرب میں عام ہے اگر مراد یہ ہوتی کہ گڑیاں اُن کے ہاتھ میں تھیں تو ہاتھوں کا ذکر ہوتا۔ آیت ِمبارکہ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ میں تو سعاً ہی اِستعمال فرمایا گیاہے۔ اِس طرح یہ اِشکال نہیں رہتا۔ اُن کے بالغہ نابالغہ ہونے کے بارے میں کوئی روایت خود اُن سے عام کتابوں میں تو ہے نہیں اقوال ِعلماء ضرور ہیں۔اور حافظ عینی نے نابالغہ لکھا ہے۔ بلوغ کا مدار آب وہوا اور غذاء کی نوعیت پر بھی ہے اور قومیت پر بھی ۔ ہمارے علاقہ پنجاب میں آج کل بھی بہت سی لڑکیاں گیارہ سال کی عمر میں بالغ ہوجاتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں اِس سے بھی کم عمر میں ہوجاتی ہیں۔ دین پور(بہاو لپور) میں گیارہ سال کی عمر میں رُخصتی بھی ہوتی رہتی ہے۔ اُس زمانے میں آب و ہوا اور بھی صاف تھی گیارہ سال سے پہلے بھی بلوغ کا امکان عقلاً واضح ہے۔ لیکن عدمِ بلوغ یا اُن کی کم عمری تو بَنٰی بِھَا اور اھدیت الیہ وغیرہ کے مفہوم کو عموم سے ہٹانے کی وجہ سے باعث ِ اِشکال ہوتی ہے کہ عام طور پر اُسے ایک خاص معنی میں ہی سمجھا جاتاہے، محض رُخصتی کے معنی میں لیا جائے تو وہ خاص اِشکال نہیں رہتا ورنہ کس کس روایت کو آپ رَد فرمائیںگے؟ نمبر ٣٣-٣٤ : نہ اُن کی کتابیں میرے پاس ہیں، نہ مجھے فرصت ہے، نہ اِتنی عقیدت کہ کتابیں منگاؤں اور فرصت نکال کے پڑھوں۔