ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
یہ گرامی نامہ صرف منفی پہلو لیے ہوئے ہے یعنی سب پر اِعتراض ہی اِعتراض ہے اِسی ذیل میں عروہ، ہشام، زہری کو مدلِس ثابت کیا گیا ہے اور یہ کہ زہری نے عروہ سے نہ سناہے نہ اُن سے ملے ہیں۔ اِس حصہ تحریر میں نمبر ٢٠ میں یہ جز ء بھی ہے کہ'' محدثین کا اِس پر اتفاق ہے کہ عروہ سے زہری کا نہ لقاء ثابت ہے نہ سماع۔'' سوال نمبر2 : یہ جناب نے کہاں سے لیا ہے۔ اگر تہذیب کی عبارت کا یہ مفہوم لیا ہے تو صحیح نہیں ہے، اِسے بغور ملاحظہ فرمائیں تو بات برعکس ثابت ہوگی۔ نیز اِس سند پر اِعتراض اِمام مالک اور اِمام محمد رحمة اللہ علیہما پر اِعتراض جیسا ہے ۔مؤطاء امام مالک میں ہے مَالِک عَنِ ابْنِ شَہَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ... ملاحظہ ہو مَاجَآئَ فِی الْقُرْآنِ ص١٨٧ پھر مؤطاء امام محمد میں بھی ملاحظہ ہو بَابُ الْمَرْأَةِ تَرٰی فِی الْمَنَامِ وغیرہ ۔امام مالک، (ہشام) زہری، عروہ سب مدنی ہیں۔ زہری کا عروہ سے نہ ملنا قابل ِتعجب ہے نہ کہ ملنا۔ ہشام کے بارے میں یہ ہے کہ اگر ہشام ایسے مدلس تھے کہ علی الاطلاق اُن سے روایت نہ لی جائے تو یہ بھی غلط ہے۔ امام مالک رحمة اللہ علیہ وعلیہم نے اُن سے بہت روایات لی ہیں پھر امام محمد رحمة اللہ علیہ نے یہی سند یعنی ہِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ اَبِیْہِ اپنی مؤطاء میں دی ہے۔ جناب نے نمبر ١٧ میں جو تحریر فرمایا ہے وہ علی الا طلاق اِس سند پر منطبق کرنا دُرست نہیں ہے۔ اِمام طحاوی کی وہ تحریر اِسی حدیث کے بارے میں ہے اور '' کتب اَسْمَآئُ الرِّجَالِ'' میں ہشام کی مدینہ شریف کی روایات اور بغداد کی روایات میں فرق بیان کیا ہے۔ نمبر١٤ : مگر لَعَبْ بِالْبَنَاتِ ا ور جاریہ صغیرہ جیسے الفاظ حاکم کی کتاب میں بھی موجود ہیں۔ جو صغر سن پر صاف دلالت کرتے ہیں اور اُن سے بہت پہلے امام بخاری کے اُستاذحمیدی کی کتاب میں بھی ہیں۔ نمبر ٢/٢٤ : سمجھ میں نہیں آیا ۔کیونکہ اُن کی طویل روایت میں '' اَنَا جَارِیَة حَدِیْثَةُ السِّنْ '' وغیرہ کے الفاظ موجودہیں۔ اُنہی الفاظ پر جناب نے زبانی گفتگو میں زہری پر سخت اِعتراض فرمایا تھا کہ زہری