ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008 |
اكستان |
|
اِس کا جواب یہ ہے کہ آدمی اپنے اُوپر ضروری خرچ کرتا ہے اور ثواب پاتا ہے لیکن فقط اپنے اُوپر خرچ کرنے کے لیے کوئی وقف نہیں کرتا اور نہ ہی اِس کا شرعی ثبوت ہے ورنہ تو بہت سے لوگ اپنی بہت سی چیزوں کو وقف قرار دے دیں۔ وقف میں شے اپنی ملک سے نکلتی ہے اور بالآخر فقراء میں یا وجوہ ِخیر میں جاتی ہے اور اُنہی کے اعتبار سے وقف کیا جاتا ہے اور اِسی کی وجہ سے لوگوں کو وقف علی النفس کی ترغیب دی جاتی ہے کہ اپنا دُنیوی فائدہ بھی ہے اور بالآخر ثواب بھی ہے۔ قال الصدر الشھید والفتوی علی قول ابی یوسف و نحن ایضا نفتی بقولہ ترغیبا للناس فی الوقف… و فی الحاوی القدسی المختار للفتوی قول ابی یوسف ترغیبا للناس و تکثیرا للخیر (البحر الرائق ص 220 ج 5) '' صدر شہید رحمة اللہ علیہ نے کہا کہ فتویٰ امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کے قول پر ہے اور ہم اِن ہی کے قول پر فتوی دیتے ہیں تا کہ لوگوں کو وقف کرنے میں رغبت ہو… حاوی قدسی میں ہے کہ فتوے کے لیے مختار قول امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کا ہے تا کہ لوگوں کو وقف کرنے میں رغبت ہو اور خیر کی صورتیں زیادہ بنیں۔ اس سے واضح ہوا کہ وقف کرنے میں اصل مقصود فقراء یا دیگر وجوہِ خیر ہیں خود اپنی ذات یا اغنیاء اصل مقصود نہیں بلکہ وہ تو بطور ِوسیلہ ہیں۔ -2 امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ جو کہ غیر منقولہ جائیداد میں وقف علی النفس کے قائل ہیں منقولہ اشیاء میں سے گھوڑوں کو فی سبیل اللہ وقف کرنے کے بھی قائل ہیں لیکن اِس کے باوجود ابن ِہمام رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : ثم اذا عرف جواز وقف الفرس والجمل فی سبیل اللہ فلو وقفہ علی ان یمسکہ ما دام حیا ان امسکہ للجھاد جاز لہ ذلک لانہ لولم یشترط کان لہ ذلک لان لجاعلی فرس السبیل ان یجاھد علیہ و ان اراد ان ینتفع بہ فی غیر ذلک لم یکن لہ ذلک و صح جعلہ للسبیل یعنی یبطل الشرط و یصح وقفہ ۔ (فتح القدیر ص 219 ج 6)