ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008 |
اكستان |
|
نگریز کے جلّاد : مجھے ایک جیلر بتلارہے تھے کہ کوڑے لگانے والے آئے، ساہیوال سے منگوائے گئے تھے ماہر، یہاں دونوں کے اَندر ماہر کا بھی فرق ہوگیا ،اسلام میں ماہر وہ ہے کہ کوڑا بھی لگ جائے اور زخم بھی نہ ہو ،( مگر اَنگریز کے) یہاں ماہر وہ ہے کہ جو زیادہ سے زیادہ ضرب پہنچاسکے۔جب تحریک چل رہی تھی ختم ِ نبوت والی تو سردیاں تھیں لوگ آئے بستر سمیت تو دو ساہیوال سے آئے ہوئے تھے کوڑے مارنے والے ماہر، اُنہوں نے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو اُنہوں نے کہا کہ اِس بستر پر مارکر دِکھاؤ تو اُنہوں نے اُس بستربند پر مارا ایک کوڑا، تو بستربند پھٹ گیا اندر شاید دَری تھی یا کیا چیز تھی وہ بھی پھٹ گئی۔ پھر جو بھی کپڑا ہوگا رضائی وغیرہ کا یا گدے کاوہ پھٹ گیا اور روئی تک وہ پہنچ گیا جب اُس نے ایسے اُٹھایا ہے تو روئی باہر آگئی اور وہ پھٹ گیا، دُوسرے نے بھی مظاہرہ کیا تو اُس کا بھی یہی ہوا دونوں ہی کامل (وحشی) تھے، اَب یہ لوگوں کو کوڑے ماریں گے تو یہ تو انگریز والے کوڑے ہیں اِن کا تو تصور ہی اِسلام میں نہیں ہے جرم ہے یہ اِسلام میں ۔یہ مارشلاء کا نام ہوتا ہے کہ مارشلاء کے کوڑے ہیں مگرمارشلاء میں بھی نہیں ہیں۔مجھے ایک فوجی افسر ہیں بڑے اُنہوں نے بتلایا کہ فوج میں کسی فوجی کو کوڑے کی سزا نہیں دی جاسکتی کیونکہ ہے ہی نہیں قانون میںیہ ١ کورٹ مارشل جب کیا جائے گا کسی کا بھی تو اُسے فوج میں کوڑوں کی سزا دی ہی نہیںجاتی کیونکہ کوڑے وہاں قانون میں ہے ہی نہیں سِرے سے۔یہ تو انگریز کے ہیں نوآبادیات کے لیے غلاموں کے لیے ۔بات ابن ِابی لیلٰی کی ہورہی تھی اُن سے یہ ہوا۔ اچھا مسجد میں حد نہیں لگائی جاسکتی کسی کو ،مسجد کے باہر لگائی جائے گی تو ایک دو تین نہیں چھ سات غلطیاں ہوگئیں تقریبًا، اَب اِس کا چرچا ہوا۔ حضرت امام اعظم کی بادشاہ سے شکایت : ابن ِ ابی لیلٰی نے شکایت کی (غالباً بادشاہ سے)کہ یہ نہ تو خود قاضی بنتے ہیں اور میں فیصلے دیتا ہوں تو تنقید کرتے ہیں مگر ابن ِابی لیلیٰ کو شکایت نہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ امام اعظم اور دیگر علماء سے پوچھتے رہنا چاہیے تھا مشورہ کرتے رہتے ملتے رہتے علمی بات ہوتی رہتی ،بہرحال اُنہوں نے بادشاہ سے شکایت کردی ہوگی اِس طرح کی شکایتیں اَور پہنچ گئیں۔ ١ البتہ جب مارشلاء آتا ہے تو عوام پر فوج یہی کوڑے برساتی ہے۔