ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008 |
اكستان |
|
آیا ہے امام ابویوسف کا زمانہ وہ بعد کا دَور ہے اُس میں اُن کی حکومت جَم چکی تھی کوئی مخالف رہا نہیں تھا تو اُس دَور میں جب وہ آئے تو پھر(اُن کے ذریعہ) وہ سیاسی فائدہ اُٹھانا بے جا فیصلے کروانا اور ناحق فیصلے کروانا،یہ صورتِ حال نہیں تھی اِس کا خدشہ نہیں رہا تھا تواُنہوں نے قبول کرلیا تھا۔ تو امامِ اعظم کا نہ قبول کرنا اپنی جگہ درُست تھا اور امام ابویوسف کا قضاء قبول کرلینا اپنی جگہ درُست تھا ۔ امام ابویوسف پر اعتراضات مستشرقین کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے : اور جو کہتا ہے کہ یہ متقی نہیں تھے یا غلط تھے یا سامراجی ذہن تھا وغیرہ یہ اُس کی گمراہی ہے بلکہ یہ چیزیں ایسی ہیں کہ جو ولائت میں امریکہ میں کینیڈا میں برطانیہ میں فرانس میں جو مستشرقین ہیں وہ جو اِسلام پر اعتراضات دماغوں میں ڈالتے ہیں اُن میں سے ایک وہم یہ بھی ہے جو دماغوں میں ڈال دیتے ہیں اور وہم کے سوا کچھ نہیں ہے، اب عام اِنسانوں بلکہ خاص لوگوں کوبھی اور جو انگریزی پڑھے ہوئے ہیں اُن کو بھی عربی کا کیا پتا کہ کیا لکھا ہے اِس کے اَندر، وہ کتاب الخراج دیکھیں یا اُن کی اَور چیزیں دیکھیں یا فتوے دیکھیں تو پھر پتا چلے گا۔ امام ابویوسف کا عدل تقوی اور معمولی بات پر پچھتاوا : ایک فیصلہ تھا جو اُن کے پاس آگیا ہارون رشید ہی کے خلاف تھا دعویٰ، بلالیا ہارون الرشید کو اُنہوں نے ،آگیا وہ لیکن جب آیا تو اُسے ذرا اُنہوں نے آرام سے بٹھایا یامعاملہ کیا تعظیم کا اُس کے ساتھ ایک طرح سے برابری کا نہیں کیا وہ جو دعویٰ کررہا تھا اُس کے برابر کا نہیں کیا۔ وہ کہتے تھے مجھے اِس کا افسوس ہے اورر ہے گا کہ اُس وقت جب یہ کیس پیش ہوا تھا اُس میں میں نے ایسا معاملہ کیوں کیا کہ اُس کو بنسبت اُس کے بہتر جگہ دی کھڑے ہونے کے لیے یا بیٹھنے کے لیے یا گفتگو کے لیے اِس کا مجھے افسوس ہے فیصلہ تو اُنہوں نے صحیح دیا فیصلہ اُس(بادشاہ) کے خلاف ہی دیا مدعی کے حق ہی میں دیا ،صرف معاملے کو وہ کہتے تھے کہ یہ روّیہ جو ہے بس مجھے اِس کا افسوس رہے گا کہ ایسے میں نے برابری کیوں نہیں کی۔ امامِ اعظم نے اِس بارے میں ١ بڑی محنت کی بہت زیادہ اور اُن کا فیض پھر بہت زیادہ چلا ہے یہ خدا کی طرف سے مقبولیت ہے وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ اِس کے مصداق امامِ اعظم اَوّلین درجے میں بنتے ہیں اور سلمان ِ فارسی بھی اور امام اعظم بھی فارسی ہی تھے یہ کابل کے رہنے والے تھے اِن کے والد یا دادا چلے گئے جاٹ برادری کے تھے جاٹ کو زوط کہتے ہیں عربی میں اور امامِ اعظم کے ساتھ زوطی لکھتے ہیں۔ ١ فقہی علوم کے ماہر تیار کرنے پر