ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008 |
اكستان |
|
مام اعظم کا سیاسی کردار : بادشاہ کو خود بھی جَلن تھی اِن (حضرت امام اعظم ) سے ایک طرح سے اور کچھ تھوڑا سا حصہ بغاوتوں میں لیتے رہے مثلاً یہ کہ فتوے دِیے ایک آدھ اُنہوں نے اِس طرح کے بنو اُمیہ کے دور میں، بنو عباس نہیں بنواُمیہ کے دَور میںتو سیاسی تو تھے حصہ تو لیتے تھے۔ لڑائی میں تو شامل نہیں ہوسکے، لڑائی میں تو معذرت کردی تھی کہ میرے پاس اَمانتوں کا بوجھ ہے اگر یہ نہ ہوتا تو میں شامل ہوتا لڑائی میں۔ لوگوں کی اَمانتیں ہیں میں واپس کرنہیں سکتا تو بہت تھیں امانتیں کوئی چارکروڑ کے قریب تھیں۔ ایک کتاب ہے مولانا مناظرا حسن گیلانی کی لکھی ہوئی ''امامِ اعظم ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی'' وہ شاید یہاں مل بھی جاتی ہے اُس میں اِس طرح کے واقعات بھی جمع ہیں امام اعظم نے عہدہ قبول نہ کیا ،امام ابویوسف نے کر لیا،اِس کی وجہ؟ : بہرحال وہ قاضی نہیں ہوئے امام ابویوسف قاضی ہوگئے تو اُن کو یہ بُرا سمجھتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ وہ سامراجی ذہن کے تھے اور کیا تھے کیا نہیں تھے؟ معاذ اللہ اِس طرح کی باتیں کرتے تھے حالانکہ یہ بات نہیں ہے بلکہ بات اَور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک حکومت جَم نہ جائے اُس وقت تک اگر کوئی آدمی اُس کو ووٹ نہ دے بیعت نہ کرے جیسے آج ووٹ ہے تو اُس کو اجازت ہے اِس کی، جب حکومت جَم جائے پھر نہیں۔ تو امامِ اعظم سے جب منصور وغیرہ نے مطالبہ کیا تھا تو اُن کی قوت جمی ہوئی نہیں تھی ڈانواں ڈول تھی تو جب حکومت ڈانواں ڈول ہوتی ہے تو ہر حاکم یہ چاہتا ہے کہ دُشمن کو کُچلے، جتنا بھی کمزور ہوجائے دُشمن اُس کا نفع ہے، اُس کو کُچلنے کے لیے قانونی کارروائی اختیار کرتا ہے قانونی کارروائی کے لیے وہ قاضیوں کو استعمال کرتا ہے فلخالی نے ایران میں کتنوں کو مروایا ہے صاف کرکے رکھ دیا میدان، جتنے بھی بادشاہ کے چاہنے والے تھے اُن کا صفایا ہی کردیا اَب کہیں جیل میں بچے کُچے تھے کوئی چھ سات سو آدمیوں کو ایک دم پھانسی دے دی، نہیں مان رہے ہوں گے نہیں باز آرہے ہوں گے کوئی چیز ایسی ہوگی بہرحال کئی سال بعد آ کر اَب پھانسی دے دی اُنہوں نے ، تو یہ کیفیت جب ہو تو اُس میں قضاء قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گویا یہ بات مان لی کہ جو بادشاہ کا منشاء ہوگا وہ ہم پورا کریں گے اُس کے مطابق فیصلہ دیں گے اور(حضرت امام اعظم کے زمانے میں) بادشاہ جو آئے تھے وہ کوئی اِس وجہ سے نہیں آئے تھے کہ غلط کام ہورہے تھے ہم آکر صحیح کریں گے، نہیں ایک بادشاہت تھی ایک دَور تھا وہ ختم ہوا توبنوعباس آگئے، منصور کو کہاجاتا ہے'' سَفَّاکْ '' بڑا خون بہانے والا۔ تو اُس وقت وہ دَور تھا پھر