ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008 |
اكستان |
|
فاصلہ بھی بہت ہو تو یہ ایسے لوگ ہوں گے لَنَا لَہ رِجَال مِّنْ ھٰؤُلائِ ١ اِن میں ایسے لوگ ہوں گے کہ جو اِس کی باریکی کو اور اُس کو پھر بھی حاصل کرلیں گے دُور سے بھی حاصل کرلیں گے۔ اَب اگر دیکھا جائے تو امامِ مالک رحمة اللہ علیہ مدینہ طیبہ کے ہیں امامِ شافعی رحمة اللہ علیہ یہ بھی عرب ہیں مکہ مکرمہ کے اور امامِ احمد ابن ِ حنبل رحمة اللہ علیہ یہ عرب ہیں امامِ اعظم رحمة اللہ علیہ بنتے ہیں فارسی علاقے کے، ائمہ میں اگر دیکھا جائے تو، اور ایسے لوگوں کو دیکھا جائے کہ جن کے پیروکار خواہ پوری دُنیا میں ہوںتو پھر وہ امامِ اعظم رحمة اللہ علیہ اِس کا مصداق اوّل درجے میں بنتے ہیں۔ متقی عالم اور مفتی بہت بڑا ولی ہوتا ہے : یہ حضرات بظاہر تو لگے رہتے تھے حدیثوں میں مسائل میں پڑھنے میں پڑھانے میں لیکن اِن کی سمجھ کی باریکی جو ہے وہ وہ ہے جو نورِ خداوندی سے پیدا ہوئی وی ہے تو اِس لحاظ سے جو میں نے بتایا تھا کہ محی الدین ابن ِ عربی کہتے ہیں کہ ایسے علماء کہ جن میں تقویٰ اور علم اور فراست وغیرہ جمع ہوں، بظاہر وہ علم ِ ظاہر کے عالم نظر آتے ہیں کتابیں پڑھتے پڑھاتے ہیں فتوے لکھتے ہیں پوری توجہ اِسی پر، دن اور رات لگے رہتے ہیں اُن کو یہ نہ سمجھو کہ وہ ولی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک قسم کے ولی ہیں اور ایک قسم وہ ہے جو سب لوگ سمجھتے ہیں کہ ذکر کررہا ہے اللہ اللہ کررہا ہے تو اُسے تو سب ہی سمجھتے ہیں کہ ولی ہے۔ ایک وہ آدمی جو دین کے کام میں منہمک ہے لگا ہوا ہے یکسوئی کے ساتھ اور متقی ہے متقی ہونا شرط ہے ورنہ تو مطالعہ کرے گا اور علم حاصل کرلے گا تقویٰ نہیں ہوگا تو کوئی فائدہ نہیں حاصل کرسکتا دین کو وہ بگاڑکر رکھ دے گا نقصان کرے گا وہ دُوسروں کے لیے بھی گمراہی کا باعث بنے گا، یہ اہم ترین شرط ہے مفتی میں کہ تقویٰ ہونا ضروری ہے۔ قاضی کے اَوصاف : قاضی میں بھی ہیں شرائط یہ کہ تقویٰ بھی ہو سمجھداری بھی ہو علم بھی ہو شجاعت بھی ہو، اگر اُس میں ہمت اور حوصلہ نہیں ہے تو ظالم کے خلاف فیصلہ دینے میں تأمل ہوجائے گا اور بھی اَوصاف ہیں سَؤُلًاعَنِ الْعِلْمِ جو چیز نہیں آتی وہ پوچھنے کے لیے جرأت ہونی چاہیے یہ بھی ایک طرح کی ہمت ہوتی ہے کہ آدمی اگر نہیں جانتا تو دُوسرے سے پوچھ لے ورنہ سمجھتا ہے کہ میری تو بڑی توہین ہوجائے گی کیسے پوچھوں میں کسی اَور سے۔ ١ مشکوة شریف ص ٥٧٦