ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008 |
اكستان |
|
کیا تکافل کا نظام اِسلامی ہے؟ ( حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب ) حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ کی کوششوں سے اِنشورنس کے مروجہ نظام کی جگہ ''تکافل'' کے نام سے اِسلامی انشورنس کا نظام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔اِس نظام کے بارے میں ہم نے مولانا تقی عثمانی مدظلہ کا ایک عربی رسالہ اور اُن کے دارالعلوم کے ایک اُستاد ڈاکٹر اعجاز احمد صاحب صمدانی کی ایک کتاب کا مطالعہ کیاتو ہمیں یہ نظام شریعت کے متصادم نظر آیا ،اِسی کے بیان میں یہ زیر نظر مضمون ہے۔(عبدالواحد غفرلہ) ہمارے ہاں تکافل یعنی اِسلامی اِنشورنس کا جو نظام رائج کیا گیا ہے وہ مولانا تقی عثمانی مدظلہ کا وضع کیا ہوا ہے اور وقف اور اُس کے چار قواعد پر مبنی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں : ومن ھنا ظھرت الحاجة الی ان تکون ھذہ المحفظة علی اساس الوقف فان الوقف لہ شخصیة اعتباریة فی کل من الشریعة والقانون۔ اِس سے یہ ضرورت ظاہر ہوئی کہ اِنشورنس کا فنڈ وقف کی بنیاد پر ہونا چاہیے کیونکہ وقف کو قانون و شریعت دونوں میں قانونی و اعتباری شخصیت حاصل ہے۔ وقف کے چار قواعد یہ ہیں : -1 نقدی (روپے) کا وقف دُرست ہے۔ -2 واقف اپنے کیے ہوئے وقف سے خود نفع اُٹھاسکتا ہے۔ -3 وقف کو جو تبرع یعنی چندہ کیا جائے وہ وقف کی ملکیت بنتا ہے خود وقف نہیں بنتا۔ -4 وقف کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ بالآخر ایسی مد کے لیے ہو جو کبھی ختم نہ ہو مثلاً فقراء کے لیے ہو۔ وقف کے اِن چار قواعد پر مبنی نظام تکافل کی تفصیلی شکل یہ ہے : نوٹ : عربی عبارت مولانا تقی عثمانی مدظلہ کے رسالہ '' تاصیل التامین التکافلی علی اساس الوقف والحاجة الداعیة الیہ'' کی ہے۔