ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008 |
اكستان |
|
ہے آج جدائی کی محفل ہم بزم ِرفیقاں چھوڑ چلے ( محمد اَحسن خدامی ،متعلم جامعہ مدنیہ جدید ) ہے آج جدائی کی محفل ہم بزم ِرفیقاں چھوڑ چلے مغموم ہے قافلہ ٔ حامد پُر نور دبستاں چھوڑ چلے کلیوں کی طرح کِھلتے تھے جہاں وہ پیارا پیارا حسیں گلشن ہم آج اُسے سُوناسُونا بادیدہ ٔ گریاں چھوڑ چلے محمود میاں کی شفقت کوہم یاروں بھول نہ پائیں گے جہاں علم وعمل کے پھول کِھلے وہ نور کی باراں چھوڑ چلے وہ پیاری پیاری سی ہستی کہتے ہیں جنھیں ''اُستاد جی'' ہمو ہ اُلفت وشفقت کا پیکر وہ چہرۂ تاباں چھوڑ چلے جہاں اپنے جگری یاروں سے ہوتے تھے مقا بل کھیلوں میں ہم آج وہ محفل ِیاراں اوروہ کھیل کا میداں چھوڑ چلے چھوٹی سی بات پہ لڑ پڑنا پھر منت اور ترلے کرنا اِیثار و محبت مہر و وفا وہ حلقہ ٔ یاراں چھوڑ چلے جو دولت ہم کویاں سے ملی اُسے لے کر ہر سُو نکلیں گے ہم اِس کی مہک پھیلائیں گے گرچہ گلستان چھوڑ چلے ہم میں سے جہاں جو جائے گا اِک مدنِیہ اور بنائے گا ''محمود'' کی خوشبو پھیلے گی اُسے شاداںو فرحاں چھوڑ چلے ہے آج جدائی کی محفل ہم بزم ِرفیقاں چھوڑ چلے مغموم ہے قافلہ ٔ حامد پُر نور دبستاں چھوڑ چلے