Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008

اكستان

8 - 64
کردی تو پھر میں اہل نہیں ہوں اِس بات کا واقعی،اور اگر میں سچ کہہ رہا ہوں تو پھر سچ تو سچ ہے تو پھر تو اہل ہوں ہی نہیں، ایک اَور صاحب جو تھے وہ وہاں گئے تو وہاں جاکر ایسے بن گئے کہ جیسے کہ بعضے(مدہوش) ہوتے ہیں جنہیں کوئی تمیز ہی نہیں ہوتی ہوش ہی نہیں ہوتا بعض بچے اچھے ہیں فلاں ہیں فلاں ہیں اِس طرح کی باتیں  (بے تکی جن کا) خلیفہ سے کرنے کا کوئی موقع نہیں ہوتا کوئی طریقہ نہیں ہوتا ایسی باتیں کرنے کا ،ایسی باتیں تو وہ کرے گا جو مخبوط الحواس ہو تو بادشاہ نے کہا نکال دو اِسے یہ تو اِس قابل ہے ہی نہیں کہ اِنہیں قاضی القضاة بنایا جائے، مقصد تھا جان بچانے کا طریقہ نکالنا، کسی نے کوئی طریقہ اختیار کیا کسی نے کوئی اختیار کیا۔
قاضیوں کو علماء سے سیکھتے رہنا چاہیے  :
قاضیوں سے غلطیاں بھی ہورہی تھیں اُن قاضیوں کو یہ چاہیے تھا کہ وہ علماء سے رابطہ رکھیں جو مسئلہ نہیں سمجھ میں آیا وہ پوچھ لیں کہ کیا ہے؟ وہ غلطیاں جب ہوتی تھیں تو پھر امام صاحب   کو کوفت بھی ہوتی تھی مسائل بھی پہنچتے تھے کہ ایسے ہوگیا۔ ایک ابن ِ ابی لیلٰی ہیں امام ابویوسف نے بھی اُن سے پڑھا ہے اِن کے اُستاد ہیں، دُوسرے اُن کے اُستاد ابوحنیفہ ہیں۔
ابن ِ ابی لیلٰی  کا غلط فیصلہ  :
 ابن ِ ابی لیلٰی نے ایسے کیا کہ ایک مجنون عورت تھی اُس کو حد لگادی، حد وہ لگادی جو تہمت لگانے کی ہوتی ہے ۔کسی کو اُس نے گالی دے دی تھی اور شاید کئی حدیں جمع کردیں دو آدمیوں کی تین آدمیوں کی حد لگادی مسجد میں ۔اَب یہ غلط بات ہوگئی بہت کافی غلطیاں اِس کے اندر ہوگئیں ۔اِس پر امام صاحب نے کہا کہ یہ تو امام ہیں بہت غلط بات ہوگئی ایک تو یہ کہ مجنون جو ہے اُس پر تو حد ہوتی ہی نہیں پاگل پر تو حد ہوا ہی نہیں کرتی اُنہوں نے پاگل کو حد لگادی ،ایک یہ کہ گالیاں اُس نے دی ہیں، کئی آدمیوں کو اگر دے دے کوئی گالی ایسی کہ تم حرام زادے ہو یا فلاں ہو تو کئی حدیں نہیں لگائی جائیں گی ایک ہی لگائی جائے گی یہ بھی غلطی اِن سے ہوئی اور جب مدعی تھا ہی کوئی نہیں تو پھر اُنہوں نے خبر پہنچنے پر کیسے لگادی حد، یہ غلطی اُن سے ہوئی ۔قاعدہ یہ ہے حد لگانے کا کہ کوئی مدعی ہو دعویٰ کرے کہ اِس نے میرے ساتھ یہ زیادتی کی ہے یہ لفظ کہے ہیں تو وہ دعویٰ کرے گا تو قاضی اُس کو کہے گا کہ گواہ بھی لاؤ ،وہ گواہ لائے گا پھر فیصلہ دے گا ،اگر کوئی گنجائش نہیں نکلتی تو پھر حد لگائے گا گنجائش نکلتی ہے تو تنبیہ کردے گا تعزیر کردے گا کوئی چھوٹی موٹی سزا دے دے گا۔تو وہاں کسی نے دعویٰ بھی
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرف آغاز 3 1
3 درس حدیث 5 1
4 متقی عالم اور مفتی بہت بڑا ولی ہوتا ہے : 6 3
5 قاضی کے اَوصاف : 6 3
6 آیت ِمبارکہ کے اوّلین مصداق حضرت امام اعظم ہیں : 7 3
7 حضرت امام اعظم کی باریک بینی، 7 3
8 امام ابو یوسف سامراجی نہ تھے ، 7 3
9 حضرت امام اعظم اور دیگر ائمہ کا قاضی بننے سے اِنکار : 7 3
10 قاضیوں کو علماء سے سیکھتے رہنا چاہیے : 8 3
11 ابن ِ ابی لیلٰی کا غلط فیصلہ : 8 3
12 اِسلام کی نظر میں سزا کا مقصد : 9 3
13 انگریز کی نظر میں سزا کا مقصد 9 3
14 نگریز کے جلّاد : 10 3
15 حضرت امام اعظم کی بادشاہ سے شکایت : 10 3
16 مام اعظم کا سیاسی کردار : 11 3
17 امام اعظم نے عہدہ قبول نہ کیا ،امام ابویوسف نے کر لیا،اِس کی وجہ؟ 11 3
18 امام ابویوسف پر اعتراضات مستشرقین کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے 12 3
19 امام ابویوسف کا عدل تقوی اور معمولی بات پر پچھتاوا 12 3
20 تنبیہ اور تربیت کا اَنداز : 13 3
21 ملفوظات شیخ الاسلام 15 1
22 حضرت عائشہ کی عمر اور حکیم نیاز احمد صاحب کا مغالطہ 18 1
23 تقریب ختم ِ بخاری شریف 24 1
24 ہے آج جدائی کی محفل ہم بزم ِرفیقاں چھوڑ چلے 33 1
25 حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب 34 1
26 ہجرت : 35 25
27 شادی : 36 25
28 عورتوں کے رُوحانی امراض 39 1
29 عورتوں کے ذریعہ فتنہ و فساد ہونے کے چند اَسباب : 39 28
30 عورتوں کو اہم نصیحتیں : 40 28
31 کیا تکافل کا نظام اِسلامی ہے؟ 42 1
32 وقف کے چار قواعد یہ ہیں : 42 31
33 پہلی باطل بنیاد : 47 31
34 گلدستہ ٔ اَحادیث 54 1
35 سب سے بہترکلمات چارہیں : 54 34
36 چار اِنتہائی وزنی کلمات : 54 34
37 حضور علیہ السلام چار چیزوں سے پناہ مانگا کرتے تھے : 55 34
38 نکاح کرتے وقت عام طور پر چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے : 56 34
39 دینی مسائل 58 1
40 ( طلاق کابیان ) 58 39
41 - 5 غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق : 58 39
42 غصہ کی تین حالتیں ہوسکتی ہیں 58 39
43 - 6 زبردستی کرکے اور دھمکی دے کر طلاق کہلوانا : 58 39
44 -7 معتوہ : 59 39
45 وفیات 59 1
46 تقریظ وتنقید 60 1
47 اخبار الجامعہ 62 1
Flag Counter