ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008 |
اكستان |
|
نفع میں سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے۔ اس طرح سے کمپنی کو ہونے والی آمدنی کی تین جہتیں ہیں : (1) فنڈ سے متعلقہ خدمات فراہم کرنے پر اُجرت (2) اپنے سرمایہ کا نفع اور (3) مضاربت میں نفع کا حصہ۔ تکافل یا اِسلامی انشورنس کے نظام کی بنیادیں باطل ہیں : ہم نے پوری دیانتداری سے اِس نظام کا مطالعہ کیا اور اِس پر غور و فکر کیا لیکن ہمیں افسوس ہے کہ مولانا تقی عثمانی مدظلہ نے اِس کو وقف کے جن قواعد پر اُٹھایا ہے ہم نے اُن قواعد کو اِس کا ساتھ دیتا ہوا نہیں پایا۔ مولانا مدظلہ نے اُن قواعد کو آپس میں جوڑ کر تکافل کا نظام بنایا ہے حالانکہ غیر منقولہ جائیداد میں وہ اگرچہ جڑتے ہیں لیکن خصوصاً نقدی کے وقف میں اِن کا جڑنا محل ِنظر ہے۔ مولانا مدظلہ نے مروّجہ اِنشورنس کے اِسلامی متبادل کی تحصیل میں تسامح سے کام لیا ہے حالانکہ ضرورت تھی کہ معاشیات کے موجودہ ترقی یافتہ دور میں تکافل کے نظام کی بنیادیں خوب مضبوط ہوتیں۔ پہلی باطل بنیاد : مولانا تقی عثمانی مدظلہ کا ذکر کردہ پہلا قاعدہ کہ ''نقدی کا وقف دُرست ہے'' اور دُوسرا قاعدہ کہ ''واقف اپنی زندگی میں بلا شرکت غیرے اپنے وقف سے خود نفع اُٹھا سکتا ہے۔'' یہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ مسلم ہیں لیکن اِن کو جوڑنا دُرست نہیں ہے۔ مولانا دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں : فی الذخیرة: اذا وقف ارضا او شیئا آخر و شرط الکل لنفسہ او شرط البعض لنفسہ ما دام حیا و بعدہ للفقراء قال ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ الوقف صحیح و مشائخ بلخ رحمھم اللہ اخذوا بقول ابی یوسف و علیہ الفتوی ترغیبا للناس فی الوقف… و لو قال ارضی ھذہ صدقة موقوفة تجری غلتھا علی ما عشت ثم بعدی علی ولدی و ولد ولدی و نسلھم ابدا ما تنا سلوا فان انقرضوا فھی علی المساکین جاز ذلک کذا فی خزانة المفتین''