ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008 |
اكستان |
|
اور ابن نجیم رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : وقد یقال ان الوقف علی الغنی تصدق بالمنفعة لان الصدقة کماتکون علی الفقراء تکون علی الاغنیائ۔ وان کان التصدق علی الغنی مجازا عن الھبة عند بعضھم و صرح فی الذخیرة بان فی التصدق علی الغنی نوع قربة دون قربة الفقیر۔ (البحر الرائق ص 187 ج 5) '' کہا جاتا ہے کہ غنی پر وقف منفعت کا صدقہ ہوتا ہے کیونکہ صدقہ جیسے فقراء پر ہوتا ہے اِسی طرح اغنیاء پر بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ بعض حضرات کے نزدیک غنی پر صدقہ کا مطلب ہبہ و ہدیہ ہوتا ہے اور ذخیرہ میں تصریح ہے کہ غنی پر صدقہ بھی ایک نوع کی قربت اور نیکی ہے جو فقیر کے ساتھ نیکی سے کمتر درجہ کی ہوتی ہے''۔ ہم کہتے ہیں : کہ غنی پر صدقہ والی بات اگرچہ فی نفسہ کمزور ہے لیکن اگر اِس کو تسلیم بھی کیا جائے تو اِس کا فائدہ فقط اِتنا ہوگا کہ وقف علی النفس یا وقف علی الاغنیاء کے وقف ہونے کی ایک توجیہ بن جائے گی لیکن اِس کے باوجود بالآخر اِس کا اَبدی طور پر فقراء پر یا مصالح مسجد پر وقف ہونا لازمی ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ فقراء پر صدقہ قربت مقصودہ ہے جبکہ اَغنیاء پر صدقہ اگر قربت بھی ہو تو وہ اِس درجہ کی نہیں کہ اِس کو آخرت کے اعتبار سے مقصود کہا جاسکے بلکہ عام طور سے امیروں کو دینے کو نیکی سمجھا ہی نہیں جاتا سوائے اِس کے کہ ساتھ میں پائی جانے والی اچھی نیت نیکی اور ثواب کا باعث ہوتی ہے۔ اس پر کوئی کہے کہ صاحب ِہدایہ نے تو اِس کو بھی قربت مقصودہ کہا ہے جبکہ وہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے قول کی تائید میں لکھتے ہیں : ولان مقصودہ القربة و فی الصرف الی نفسہ ذلک قال علیہ الصلاة والسلام نفقة الرجل علی نفسہ صدقة ۔ ''وجہ یہ ہے کہ واقف کا مقصود قربت و نیکی ہوتی ہے۔ اور اپنے اُوپر خرچ کرنا بھی نیکی ہے کیونکہ رسول اللہ ۖنے فرمایا آدمی کا اپنے اُوپر خرچ کرنا صدقہ ہے''۔