ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008 |
اكستان |
|
ہوں ایسے علم سے جو نافع نہ ہو، اُس دل سے جو ڈرتا نہ ہو، اُس نفس سے جو سیر نہ ہوتا ہو اور اُس دُعاء سے جو قبول نہ ہوتی ہو۔ نکاح کرتے وقت عام طور پر چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے : عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ لِاَرْبَعٍ لِمَالِھَا وَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْنِھَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ۔ (بخاری و مسلم بحوالہ مشکٰوة ص ٢٦٧) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم ۖ نے فرمایا : عورت سے نکاح چار چیزوں کو ملحوظ رکھ کر کیا جاتا ہے : (١) اُس کے مال و دولت کو (٢) اُس کے حسب و نسب کو (٣) اُس کے حسن و جمال کو (٤) اور اُس کے دیندار ہونے کو۔ (اے ابوہریرہ) تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں تو تو دیندار عورت سے شادی کرکے کامیابی حاصل کر۔ ف : حدیث ِ پاک سے معلوم ہورہا ہے کہ عام طور پر لوگ کسی بھی عورت سے نکاح کرنے میں مذکورہ چار چیزوں کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ کوئی شخص مال دار عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے، کچھ لوگ اچھے حسب و نسب کی عورت یعنی اعلیٰ خاندان کی عورت کو بیوی بنانا پسند کرتے ہیں ،کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک حسین و جمیل عورت اُن کی بیوی بنے، کچھ اللہ کے نیک بندے دیندار عورت کو ترجیح دیتے ہیں۔ دین و مذہب سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ نکاح کے لیے دیندار عورت ہی کا انتخاب کرے کہ اِسی میں اُس کی دُنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ حدیث ِ پاک کے آخر میں جو فرمایا گیا کہ تَرِبَتْ یَدَاکَ تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں اِس سے مراد بد دُعاء نہیں ہے بلکہ عربوں کے محاورہ میں یہ جملہ پیار و محبت میں بولا جاتا ہے۔