ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008 |
اكستان |
|
استحسان۔ والقیاس ان لا یجوز لما بیناہ من قبل (من شرط التابید والمنقول لا یتأ بد)۔ وجہ الاستحسان الآثار المشھورة ای فی الکراع و السلاح ۔ وعن محمد انہ یجوز وقف ما فیہ تعامل من المنقولات کالفاس والمر والقدوم والمنشار والجنازة و ثیابھا والقدر والمرجل والمصاحف وعند ابی یوسف لا یجوز لان القیاس انما یترک بالنص والنص ورد فی الکراع والسلاح فیقتصرعلیہ و محمد یقول القیاس قد یترک بالتعامل کما فی الاستصناع وقد وجد التعامل فی ھذہ الاشیاء ۔ (ہدایہ) جب منقولہ اشیاء میں وقف کے ثبوت کی بنیادیں ہی جُدا ہیں تو اِن میں غیر منقولہ جائیداد کے وقف کے ایک حکم یعنی وقف علی النفس کو جاری کرنا یا تو قیاس سے ہوگا یا استحسان سے ہوگا؟ استحسان صرف گھوڑے اور ہتھیار میں ہے کسی اور منقولہ شے میں نہیں ہے۔ رہا قیاس تو وہ ممکن ہی نہیں کیونکہ منقولہ و غیر منقولہ میں فارق موجود ہے یعنی یہ فرق ہے کہ غیر منقولہ جائیداد اَبدی و دائمی ہوتی ہے اور منقولہ شے عارضی اور غیر دائمی ہوتی ہے اور قربت مطلوبہ و مقصودہ تک اِس کا پہنچنا مخدوش و مشکوک ہوتا ہے۔ تنبیہ : یہاں ہم نے قربت مطلوبہ و مقصودہ کا ذکر کیا ہے اِس کی وجہ یہ ہے کہ وقف علی النفس کی صورت میں دو قسم کی قربتیں ذکر کی جاتی ہیں۔ ایک وہ جو وقف ہونے کی وجہ سے لازمی ہے، ابن ہمام رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لان الوقف یصح لمن یحب من الاغنیاء بلا قصد القربة وھو وان کان لا بد فی آخرہ من القربة بشرط التابید وھو بذلک کالفقراء و مصالح المسجد ۔(فتح القدیر) ''قربت کے قصد کے بغیر وقف اَغنیاء کے حق میں بھی صحیح ہوتا ہے اگرچہ اغنیاء کے بعد اَبدیت کی شرط کے ساتھ قربت کے لیے مثلاً اِس کا فقراء کے لیے ہونا یا مصالح مسجد کے لیے ہونا ناگزیر ہے''۔