ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2008 |
اكستان |
|
ذخیرہ میں ہے: جب کوئی شخص کوئی زمین یا کوئی اور شے وقف کرے اور یہ شرط کرے کہ جب تک وہ زندہ ہے وہ کل وقف کو یا اُس کے ایک حصہ کو اپنے استعمال میں رکھے گا تو ابویوسف رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ وقف صحیح ہے اور مشائخ بلخ نے ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کے قول کو اختیار کیا اور اِسی پر فتویٰ ہے تا کہ لوگوں کو وقف کرنے میں رغبت رہے… اور اگر کوئی شخص یوں کہے کہ میری یہ زمین صدقہ وقف ہے اور جب تک میں زندہ ہوں میں اِس کی آمدنی لوں گا اور میرے بعد میری اَولاد پر اور اَولاد کی اَولاد پر اور میری پوری نسل پر جب تک وہ چلے، پھر جب میری نسل ختم ہو جائے تو وہ مساکین پر وقف ہے تو جائز ہے۔ خزانة المفتین میں ایسے ہی ہے۔ ہم کہتے ہیں : واقف کا یہ شرط کرنا کہ زندگی بھر وقف کردہ شے سے صرف وہی منتفع ہوگا بلکہ اپنی اَولاد اور پوری نسل کے لیے بھی یہ شرط کرنا غیر منقولہ جائیداد میں تو متصور ہے کیونکہ وہ جائیداد خود اَبدی و دائمی ہوتی ہے کبھی ضائع نہیں ہوتی جبکہ نقدی اور دیگر منقولہ اشیاء میں اَبدیت و دوام کی توقع ہی نہیں ہوتی بلکہ نقدی میں تو خطرہ ہوتا ہے کہ کاروباری نقصان کے باعث اصل رقم کچھ یا کل ہی جاتی رہے جبکہ دیگر منقولہ اشیاء مثلاً بہت سے برتن، کتابیں اور مصاحف وغیرہ تیس چالیس سال کے استعمال سے بوسیدہ ہو جاتی ہیں اور کسی دُوسرے کے کام کی نہیں رہتیں۔ علاوہ اَزیں وہ کسی حادثہ کا شکار بھی ہوسکتی ہیں اور چوری بھی ہوسکتی ہیں۔ اس لیے منقولہ اشیاء میں صرف یہی صورت ممکن ہے کہ آدمی اُن کو وجوہ ِخیر میں فوری وقف کر دے اور شرط کر دے کہ وہ خود بھی دُوسرے کے ساتھ نفع اٹھائے گا یا وقف کے منافع کا حقدار ہونے کی وجہ سے دُوسرے حقداروں کے ساتھ شریک ہوگا۔ ہماری بات کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں : -1 اگرچہ منقولہ اشیاء میں وقف دُرست ہے لیکن وہ خلاف ِقیاس محض استحسان کی وجہ سے دُرست ہے یعنی حدیث کی وجہ سے، تعامل کی وجہ سے اور فقراء کے لیے نفع ہونے کی وجہ سے۔ لا یجوز وقف ما ینقل ویحول… وقال محمد یجوز حبس الکراع و السلاح و معناہ و وقفہ فی سبیل اللّٰہ و ابو یوسف معہ فیہ علی ما قالوا وھو