ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2008 |
اكستان |
|
پر سے پانی بہادینا کافی ہے۔'' یہاں یہ جو کہا کہ ''اِن پر سے پانی بہادینا کافی ہے'' اِس کا یہ مطلب نہیں کہ بالوں کی ظاہری سطح پر پانی بہہ جائے تو کافی ہے بلکہ مراد ہے کہ کھال کے اُوپر جو بال ہیں اُن کو دھونا کافی ہے اُن کے نیچے کھال تک پانی پہنچانا فرض نہیں۔ اِس کی وضاحت بہشتی گوہر ہی کے اگلے مسئلہ میں ہے۔ (ii) ''بھویں یا داڑھی مونچھ اگر اِس قدر گھنی ہوں کہ اِس کے نیچے کی کھال چھپ جائے اور نظر نہ آئے تو ایسی صورت میں اِس قدر بالوں کا دھونا واجب ہے جو حد چہرہ کے اندر ہیں۔ باقی بال جو حد مذکورہ سے آگے بڑھ گئے ہوں اُن کا دھونا واجب نہیں۔'' - 8 امدادالفتاوٰ ی ص5 ج1 میں ہے :اگرداڑھی ایسی ہوجس کے اندر جلد وجہ کی نظرآتی ہو وہاں تو اُس جلد کا بھی دھونا فرض ہے اور اگر جلد مستور ہو تو جس قدر حد وجہ اور دائرہ وجہ سے نیچے لٹکی ہو اُس کا مسح سنت ہے اور جو دائرہ حد وجہ کے اندر ہو کہ اگر اُس بال کو پکڑکر کھینچا جائے تو وجہ سے باہر نہ رہے تو اُس میں کئی روایتیں ہیں۔ ایک روایت وہ بھی ہے جو شرح وقایہ میں ہے لیکن صحیح روایت یہ ہے کہ سب کا دھونا فرض ہے۔'' - 9 مولانا عبد الحی فرنگی محلی رحمہ اللہ کی کتاب نفع المفتی والسائل ص 25,26 میں ہے : سَوَالُ اَیِّ مُلْتَحٍ مُتَوَضٍّ یَجِبُ عَلَیْہِ غَسْلُ مَنَابِتِ اللِّحْیَةِ فِی الْوُضُوْئِ اَقُوْلُ ھُوَ مَنْ کَانَتْ لِحْیَتُہ قَلِیْلَةَ الشَّعْرِ بِحَیْثُ تَبْدُوْ مَنَابِتُہ نَصَّ عَلَیْہِ الْبَرْجَنْدِیْ فِیْ شَرْحِ النِّقَایَةِ اَمَّا مَنْ کَانَتْ لِحْیَتُہ سَاتِرَةً لِّلْمَنَابِتِ یَکْفِیْ لَہ اَنْ یَّغْسِلَ جَمِیْعَ اللِّحْیَةِ …… وَفِیْ مَوَاھِبِ الرَّحْمٰنِ وُجُوْبُ ظَاہِرِ اللِّحْیَةِ الْکَثَّةِ اَصَحُّ مَایُفْتٰی بِہ …… وَمَاھُوَ الْمُعْتَمَدُ الْمُصَحَّحُ ھُوَ اَنَّ غَسْلَ جَمِیْعِ مَا یَسْتُرُ الْبَشَرَةَ فَرَض ۔ ''اِس سوال کے جواب میں کہ کون سے شخص کو داڑھی کے بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچانا فرض ہے مولانا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس کے بال اِتنے کم ہوں کہ بالوں کی جڑیں نظر