ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2008 |
اكستان |
|
فکرہوتی ہے کبھی خاوندسے فرمائش ہوتی ہے کبھی خودبزاز(کپڑے بیچنے والے) کودروازہ پربلاکراُس سے اُدھارلیاجاتاہے یاسودی قرض لے کراُس سے خریداجاتاہے۔ شوہرکواگروسعت نہیں ہوتی تب بھی اُس کا عذر قبول نہیں ہوتا۔ ظاہرہے یہ جوڑامحض ریااورتفاخرکے لیے بنتاہے۔ اِس غرض سے مال خرچ کرنااِسراف ہے خاوندپراُس کی وسعت سے زیادہ بلاضرورت فرمائش کرنااُس کوایذاء پہنچاناہے اگرخاوندکی نیت اُن فرمائشوں سے بگڑگئی اورحرام آمدنی پراُس کی نظرپہنچی توکسی کاحق تلف کیارشوت لی اورفرمائشیں پوری کیں اَب گناہوں کاباعث یہ بی بی بنی۔ اِن رسموں کے پوراکرنے میں اکثرمقروض بھی ہوتے ہیں گوباغ ہی فروخت یاگروی ہوجائے اوراگرسوددیناپڑے اُس میں التزام مالایلزم اورنمائش شہرت اسراف وغیرہ سب خرابیاں موجودہیں اِس لیے یہ ممنوعات میں داخل ہیں۔ (اصلاح الرسوم ) رسوم ورواج کی جڑوبنیاد عورتیں ہیں : جتنے سامان بیاہ شادی کے ہیں سب کی بناء تفاخراورنمود(شہرت )پرہے اوریہ تفاخر گومردبھی کرتے ہیں مگر اصل جڑاِس میں عورتیں ہی ہیں یہ اِس فن کی امام ہیں اورایسی مشاق اور تجر بہ کارہیں کہ نہایت آسانی سے تعلیم دے سکتی ہیں۔ جوآدمی جس فن میں ماہرہوتاہے اُس کو اُس فن کے کلیات خوب معلوم ہوتے ہیں۔یہ ایک کلیہ (قاعدہ )میں سب کچھ سکھادیتی ہیں۔ جب اُن سے پوچھاجائے کہ بیاہ شادی میں کیا کرنا چاہیے؟ توایک ذراسے کلمہ سے سمجھادیتی ہیں کہ زیادہ نہیں اپنی شان کے موافق توکرلو۔ یہ کلیہ نہیں بلکہ کلیہا ہے۔اورکلیہاایساکہ ہاتھی بھی اُس میں سماجائے۔ یہ تواِتناساجملہ کہہ کرالگ ہوگئیں، کرنے والوں نے جب اُس کی شرح پوچھی تووہ اِتنی طویل ہوئی کہ ہزاروں جزئیات اُس میں سے نکل آئیں جن سے دُنیاکی بھی بربادی ہوئی اورآخرت کابھی کوئی گناہ نہیں بچا۔ اِنہوں نے تو صرف ایک لفظ یہ کہہ دیاتھاکہ اپنی شان کے موافق کرلو۔ جس کومردوں نے شرح کرا کرااِتنابڑھالیا کہ ریاستوں کی ریاستیں غارت ہوگئیں ہزاروں گناہ کبیرہ سرزدہوگئے۔ (جاری ہے )