ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2008 |
اكستان |
|
دیا،مجھے تو یاد پڑتاہے کہ میں نے اپنے عریضہ میں لکھاتھاکہ آپ ا پنے الفاظ میںاِس مضمون کوتحریر فرمائیں تواِنشا ء اللہ تعالیٰ زیادہ مؤثرہوگا،اِس میں کوئی تواضع یاتصنع نہیں کہ میری تحریربے ربط ہوتی ہے کہ بولنے کا سلیقہ نہ لکھنے کا۔ آپ نے اکابرکے متعلق جولکھاوہ حرف بحرف صحیح ہے،بہت سے اَکابرکی صورتیں خوب یادہیں ، حضرت گنگوہی قدس سرہ کے دورسے اِن اکابرکوبہت کثرت سے دیکھنے کی نوبت آئی،بلامبالغہ صورت سے نور ٹپکتاتھا،اورچندروزپاس رہنے سے خودبخودطبائع میں دین کی عظمت ،اللہ تعالیٰ کی محبت پیداہوتی تھی ، حضرت گنگوہی قدس سرہ کے متعلق بہت سے جاہلوںکومیں نے خوددیکھاکہ بیعت ہونے کے بعد تہجد نہیں چھوٹا اور بعض جاہلوں کو تویہاں تک دیکھاکہ کوئی نیامولوی اپنے وعظ میں کچھ اِدھراُدھرکی کہہ دیتاتووہ آکرپوچھتے کہ فلاں مولوی صاحب نے وعظ میں یوں کہاہے۔ ناگل کے قریب ایک گاؤں تھااُس وقت نام تویادنہیں رہا،میرے دوست کہتے ہیں کہ آپ بیتی میں یہ قصہ آگیاہے ،یہاں کے ایک رہنے والے جن کومیں شاہ جی کہاکرتاتھا،ہرجمعہ کوسردی یاگرمی یابارش ہو ہر جمعہ کوناگل سے پیدل چل کرجمعہ حضرت گنگوہی کے یہاں پڑھاکرتاتھااورجمعہ کے بعدحضرت گنگوہی کی مجلس میں شریک ہوکرعصرسے پہلے چل کرعشاء کے بعد اپنے گھرپہنچ جایاکرتاتھا،اورحضرت شیخ الہند کاقصّہ تو مشہور ہے کہ جمعرات کی شام کومدرسہ کاسبق پڑھاکرہمیشہ پیدل گنگوہ تشریف لے جایاکرتے تھے اورشنبہ کی شب میں عشاء کے بعدیاتہجدکے وقت گنگوہ سے چل کرشنبہ کی صبح کودیوبندمیں سبق پڑھایاکرتے تھے ، یہ مناظرآ نکھوں میںگومتے ہیں اوردل کوتڑپاتے ہیں۔ اِشکال کاجواب : آپ نے جواِشکال کیاوہ بالکل صحیح ہے، مگراُس تالی کے ساتھ مقدم کاتحقق ہوجائے توسب کچھ ہے ، یقیناًقرآ ن پاک کی اورحدیث کی تعلیم تو بہت اُونچی ہے اوراُس میں سب کچھ ہے،اُس کامقابلہ کوئی چیز کیا کر سکتی ہے۔ مگرتابعین کے زمانے سے قلبی امراض کی کثرت نے اِس زمانے کے مشائخ کواِن علاجوں کی طرف متوجہ کیاجیساکہ امراضِ بدنیہ میں ہرزمانے کے اطباء نے نئے نئے امراض کے لیے نئی نئی دوائیں