ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2008 |
اكستان |
|
وَالْبَدَائِعِ ۔ قَالَ فِیْ مِعْرَاجِ الدِّرَایَةِ وَھُوَ الْاَصَحُّ وَفِی الْفَتَاوَی الظَّھِیْرِیَّةِ وَبِہ یُفْتٰی۔ قَالَ فِی الْبَدَائِعِ عَنِ ابْنِ شُجَاعٍ اِنَّہُمْ رَجَعُوْا عَمَّا سِوٰی ھٰذَا وَجْہُہ اِنَّہ لَمَّا سَقَطَ غَسْلُ مَا تَحْتَہ انْتَقَلَ فَرْضُ الْغَسْلِ اِلَیْہِ کَالشَّارِبِ وَالْحَاجِبِ حَیْثُ یَنْتَقِلُ فَرْضِیَّةُ غَسْلٍ مَا تَحْتَھُمَا اِلَیْھِمِا۔ امام صاحب سے جو اظہر روایت ہے وہ کھال سے ملے ہوئے بالوں کو دھونا ہے اور اُس کو محیط اور بدائع میں اختیار کیا ہے۔ معراج الدرایہ میں ہے کہ یہی روایت اصح ہے اور فتاوی ظہیریہ میں ہے کہ اِسی کا فتوٰی دیا جاتا ہے۔ بدائع میں ابن شجاع رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ ائمہ نے اِس کے سوا باقی روایات سے رجوع کرلیا اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ جب گھنی داڑھی کے نیچے کھال کو دھونا ساقط ہوگیا تو دھونے کا فرض داڑھی کی طرف منتقل ہوگیا جیساکہ مونچھ اور بھووں میں اُن کے نیچے کی کھال کو دھونے کا فرض خود مونچھ اور بھووں کو منتقل ہوگیا۔ ہم کہتے ہیں مَا یُلاقِی الْبَشَرَةَ سے مراد کھال پر اُگنے والے بال ہیں البتہ اُن کی صرف اِتنی مقدار جو چہرے کے دائرے کے اَندر ہو۔ اگر ہم یہ معنٰی نہ لیں تو مَا یُلاقِی الْبَشَرَةَ کا مطلب بنے گا وہ بال جو کھال کے ساتھ لگے ہوں اور وہ تو گھنی داڑھی میں چھپے ہوئے بال ہوتے ہیں ظاہری سطح پر نظر آنے والے بال نہیں ہوتے۔ - 6 سعایہ ص 47 ج1 میں بعینہ عالمگیری والی عبارت ہے : یُغْسَلُ شَعْرُ الشَّارِبِ وَالْحَاجِبَیْنِ وَمَاکَانَ مِنْ شَعْرِ اللِّحْیَةِ عَلٰی اَصْلِ الذَّقْنِ وَلَا یَجِبُ اِیْصَالُہ اِلٰی مَنَابِتِ الشَّعْرِ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ قَلِیْلًا بِحَیْثُ تَبْدُو الْمَنَابِتُ۔ - 7 بہشتی گوہر میں ہے : (i) ''داڑھی یا مونچھ یا بھویں اگر اِس قدر گھنی ہوں کہ کھال نظر نہ آئے تو اُس کھال کا دھونا جو اِس سے چھپی ہوئی ہے فرض نہیں ہے بلکہ وہ بال ہی قائم مقام کھال کے ہیں اِن