ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2008 |
اكستان |
کاتذکرہ آیاتھا، اساتذہ مدرسہ عربیہ اِسلامیہ کاشوریٰ کاجلاس تھا، اُس مجلس میں مکتوب مبارک سنایاگیا اورعمل کرنے کے لیے تدبیرومشورہ پرغوربھی ہوا،بات توبالکل واضح ہے ،ذکراللہ کی برکات وانوارسے جو نتائج مرتب ہوں گے وہ بھی واضح ہے اورمیں اُس کی تلافی کے لیے ہمیشہ یہ کہاکرتاتھا کہ ہرمدرسہ کے ساتھ ایک خانقاہ کی ضرورت ہے۔ ہمارے اَکابرجو اخلاص اورتعلق مع اللہ کے مجسمہ تھے وہ محتاج بیان نہیں، اُن کی تدریس وتعلیم سے غیرشعوری طورپرایسی تربیت ہوتی تھی اوراُن کی قوتِ نسبت سے اِتنااَثرہوتاتھا کہ درس سے فراغت کے بعد ایسامحسوس ہوتاتھا جیسے کوئی ذاکراعتکاف سے باہرآرہاہے، بلاشبہ کاملین کادَورختم ہواتواُس کی تکمیل کے لیے اِس قسم کی تدابیرکی ضرورت ہے،حق تعالیٰ جلدسے جلدعملی طورپراِس کی تشکیل کی توفیق نصیب فرمائے ، آمین۔ اہم اِشکال : البتہ ایک اِشکال ذہن میں آیاکہ ویسے توعلوم ِدین ،تدریس کتب ِدینیہ سب ہی ذکراللہ کے حکم میں ہیں اگراخلاص وحسن ِنیت نصیب ہو، اورذکراللہ بھی اگرخدانخواستہ ریاکاری سے ہوتوعبث بلکہ وبال ِجان ہے، لیکن اگرکسی درس گاہ میں تعلیم قرآن کریم کاشعبہ بھی ہے اوربچے تعلیم قرآن اورحفظ قرآن میں مشغول ہیں اورالحمدللہ ایسے مدارس بھی ہیں جہاں معصوم بچے اورمسافربچے شب وروزبلاشبہ بارہ گھنٹے تلاوت قرآن میں مشغول رہتے ہیں، مقصدبھی الحمدللہ بہت اُونچااورنیت بھی صالح، توکیایہ ذکرُاللہ اِن ذاکرین کے ذکرکی جگہ پُر نہیں کرسکتے ؟ اوریہ سلسلہ اگراِس طرح جاری وساری رہے تو الحمد للہ اچھاخاصابدل مل جاتاہے ، ظاہرہے کہ عہدِنبوت میں یہ سلاسل وطُرق کانظام تو نہیں تھا بلکہ تلاوت قرآن کریم، مختلف اوقات واعمال کے اذکار و اَدعیہ ، پھرصحبت مقدسہ، قیام لیل وغیرہ کی صورت تھی، بظاہراگراِ س قسم کی کوئی صورت مستقل قائم ہوتو شاید فی الجملہ بدل بن سکے گا، ہاں یہ دُرست ہے کہ ذکرتبعاًہوگا، اوربصورت مشائخ طریقت ذاکرین کا سلسلہ شایدقصداًواِرادتاًہوگا، شایدکچھ ملحوظِ خاطرعاملہ ہوگا۔ بہرحال مزیدرہنمائی کامحتاج ہوں،مجھے اپنے ناقص ہونے کابے حدافسوس ہے، کاش رسمی تکمیل ہو